سوشل میڈیا پر آج کل ایک بہت خوبصورت کہادت لکھی ملتی ہے کہ ’’ زلزلہ جب آتا ہے تو ہلتے درخت سے سارے پرندے اڑ جاتے ہیں مگر وہ درخت اگر اس زلزلے سے گرتا نہیں اور سلامت رہتا ہے تو پرندے درخت پر واپس آ جاتے ہیں۔آج کل ایک سیاسی جماعت زلزلے کی زد میں ہے۔ جس میں کمی کی فی الحال گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ میرے جیسے بندے کے لئے بس گھر بیٹھ یہ سب دیکھنا اور ٹی وی کی خبریں سن کر ملک کے حالات پر رنجور ہونے کے سوا کچھ کام نہیں ہوتا۔ شایدعمر کے اس حصے میں آدمی کا یہی کام ہے کہ کوئی ہنستا ہوا شخص پاس آجائے تو آدمی اس کے ساتھ خوش ہو جائے۔ اگر کوئی اداس شخص آپ سے ملنے آ جائے تو آپ کو اس کے غم اور دکھ بانٹ لینا ہوتے ہیں۔ ویسے دکھ بانٹنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ خلیل جبران نے کہا ہے ’’ تم اس شخص کو بھول سکتے ہو جس کے ساتھ ہنسے ہو مگر اس شخص کو نہیں بھول سکتے جس کے ساتھ روئے ہو‘‘۔ویسے آج کل کے حالات میں بہتر ہے کہ سیاست چھوڑ کر دوسری خبروں پر دھیان دیا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہو گا۔اسی لئے میںآجکل فقط اخبار کی خبروں پر دھیان دیتا ہوں جو بڑی مزیدار اور دلچسپ ہونے کے علاوہ وقت گزارنے کا بہترین مصرف ہوتی ہیں ۔ ما شا اﷲہماری ریلوے کی بے مثال کارکردگی کے سبب لاہور سے کراچی کے لئے یکم مئی سے بحال ہونے والی ٹرین شالیمار ایکسپریس مسافروں کی کمی کا شکار ہے جس کے نتیجے میںپہلے ڈائیننگ کار کے کنٹریکٹر نے اور پھر ریلوے انتظامیہ نے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں۔ ڈائیننگ کار کے کنٹریکٹر کو روزانہ کی بنیاد پر ریلوے کو ستر (70) ہزار کی ادائیگی کرنا ہوتی تھی۔ ریلوے کے مسافر جو ادائیگی کرکے کھانا کھاتے ہیں، کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی مگر ریلوے کے ملازم جو مفت کھانا اپنا حق جانتے ہیں کا،فی معقول تعداد میں موجود تھے، بیچارے کنٹریکٹرکو کیسے یہ گوارا تھا۔روزانہ کا چالیس ہزار کا نقصان اٹھانے کے بعد ریلوے کو جواب دے گیا۔شاید اسے نا اہل انتظامیہ کی موجودگی میں اچھے دنوں کی امید نہیں تھی۔اس ٹرین کا نیا روٹ ،جس پر فیول کی مد میں بھی خرچہ بہت بڑھ چکا ہے ،اس کی تباہی کا باعث ہے جس میں تبدیلی ایک بار پھر زیر غور ہے۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ ریلوے کی شہرت بہتر کریں اسے اس قابل بنائیں کہ لوگ سفر کرنا پسند کریںاور سب سے پہلے ذمہ دار اپنا قبلہ درست کریں ، سارے روٹ رواں ہو جائیں گے۔ میاں نواز شریف کو ایک بار پھر مسلم لیگ کی تنظیم سازی کا خیال آیا ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں کچھ رہنمائوں کو اپنے پاس لندن طلب کر لیا ہے تاکہ ان سے موجودہ حالات کی تفصیلی رپور ٹ لی جائے اور انہیں مزید ہدایات دینے کے علاوہ اگلی گائیڈ لائن بھی دی جائے۔تنظیم سازی کی نئی کمیٹی میں برطانیہ کے ایک صاحب بھی شامل ہیں۔میں حیران ہوں کہ اس کام کے لئے ایسے بدیسی لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو پتہ نہیں اس چیز کے اہل بھی ہیں کہ نہیں۔جب کہ یہ ان لوگوں کا کام ہوتا ہے جو عوام میں رہتے اور ان کے احساسات اور جذبات سے کلی واقف ہوتے ہیں۔رات دن میں تمیز کئے بغیر تنظیم سازی پر پوری توجہ دیتے ہیں۔ میاں صاحب بہرحال بہتر جانتے ہوں گے مگر میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ کے پاس تنظیم سازی کے شہرت یافتہ طلال چوہدری جیسے کئی مایہ ناز لوگ پہلے سے موجود ہیںاور وہ لوگ اپنی حد تک ہمہ وقت جہاں ممکن ہو تنظیم سازی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے جانثار لوگوں کو ایسے موقع پر نظر انداز کرنا ، ان غریب اور مخلص کارکنوں کی قربانیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ میں ٹی وی پر دو انٹریو دیکھ رہا تھا۔ایک سیالکوٹ کی ایک معروف ابن الوقت سیاسی خاتون رہنما تھیں اور دوسرے لاہور کے ایک حادثاتی لیڈر ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی دوستی یا کاسہ لیسی کے سبب ٍبغیر قابلیت اور بغیر میرٹ چند دن کسی بہتر پوزیشن پررہنے والے،جو آج کل ایک بڑے خود ساختہ لیڈر ہیں، کوانٹرویو کے دوران ااپنی وفاداریوں کے بدلنے کو صحیح کہنے اور پھر اپنی پرانی قیادت کے بارے دشنام تراشی کرنے پر اینکر حضرات نے دونوں کو دھو ڈالا۔ بڑے سخت سوال کئے مگر انہیں کوئی اثر کہاں۔سوچتا ہوں کہ سیاست میں اگر دل ہو تو یہ موقع ہی کیوں آئے۔پتہ نہیں ہمارے لیڈر ایسے سچے جھوٹے دوستوں کو کیوں اتنی اہمیت دے دیتے ہیں کہ بعد میں یہی لوگ آستین کے سانپ ثابت ہوتے ہیں۔ ایک اور اسی کردار کے حامل سیاسی لیڈر دعویٰ کر رہے تھے کہ عوام کو بے آسرا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس لئے میں نے پارٹی بدلی ہے کہ میرے حلقے کے عو ام کی نمائندگی برقرار رہے۔کیسی اور کہاں کی نمائندگی ،آپ کیا ہو؟ کراچی میں الیکشن کا اونٹ ایک خاص کروٹ بیٹھ گیا ہے ۔دعویٰ کرنے والوں نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ہے۔جماعت اسلامی کو گلہ ہے کہ یہ الیکشن ان کا تھا مگر ان کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ہے۔میں محترم سراج الحق صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں، مگر سمجھتا ہوںشاید اس سب کے ذمہ دار وہ ہیں۔ اصولی سیاست اس بات کا تقاضہ کرتی تھی کہ چاہے کچھ ہو ، بغیر کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کا سوچے، جماعت اسلامی اس ملک کی خیر خواہی میں آئین کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ جب نوے دن میں الیکشن نہیں ہوئے اور عدالتیں اس کے بارے میں کمزور فیصلے دے رہی تھیں تو جماعت کا فرض تھا کہ ڈٹ جاتی اور کہتی کہ آئین اگر نوے دن کہتا ہے تو ایک دن زیادہ بھی جرم ہے۔ کورٹ تاخیر کرنے والوں کو پہلے سزا دے پھر کم سے کم مدت میں الیکشن کا حکم دے۔ مگر جناب سراج الحق صاحب نے فرمایاکہ جہاں ایک سو دس دن گزرے ہیں وہاں دو سو دس بھی گزر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔یوں ان کے سامنے آئین کی توہین ہوئی، پھر اس کا چہلم بھی ہو گیا اور سب دیکھتے رہے۔کوئی نہیں بولا،لگتا ہے اس ملک میں ہر شخص کو مادر پدر آزادی حاصل ہے، یہاں جس کا زور چلتا ہے اسے سب کرنے کا حق حاصل ہے۔اگر ایک دفعہ آئین کی پرواہ نہیں ہوئی تو ایک دفعہ دوبارہ نہ ہونے میں کیا حرج ہے۔اصل میںتو اس ملک میں آنکھیں بند رکھنے کا فیشن آ گیا ہے تو آج سے لیجئے میری بھی آنکھیں بند ہیں ۔ لوٹ ماراور جو بھی آپ کے بس میں ہے ، کریں ۔ پاکستان زندہ باد۔