میرا جس کوہکن سے اوائل عمری میں تعلق خاطر استوار ہوا وہ غالب کے کوہکن کی طرح سر گشتہ خمار رسوم و قیود نہ تھا۔ میرے ہیرو اور مربی کی شیریں اسکا وطن عزیز تھا اور آج بھی ہے ،مگر دشمنان جاں نے کوئی دقیقہ فرو گزشت نہیں چھوڑ ا کہ وہ شیریں کے عشق جاں پرسوز کا خیال دل سے نکال دے مگر وہ شیریں کے عشق لازوال کا اسیر ہو کر سنگلاخ چٹانوں پر تیشہ زنی کئے جا رہا ہے اور بضد ہے کہ وہ جوئے شیر کو ہر حال میں حقیقت کا روپ دے گا مگر کبھی مایوس ہو کر فرہاد کی طرح تیشے سے خود کو ختم نہیں کرے گا چاہے اسے جبرو استبداد کی چکی میں پاٹ دیا جائے۔چونکہ اس نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا ہے صبر، استقامت، خدائے ذوالجلال پر بے تحاشا اعتقاد اور یقین نے اسے ایک لافانی کردار بنا دیا ہے۔ کرزما اور مقناطیسی کشش تو اس کی ذات کا پہلے بھی حصہ تھی مگر اب تو مزاحمت کا استعارہ جو بلاشبہ کروڑوں پاکستانیوں کا رہنما اور مرشد ہے۔ ایک دیومالائی قصے کہانیوں کا ایک خوبصورت پرندہ ققنس (phoenix) کا روپ دھار چکا ہے جو اپنی راکھ سے بار بار جنم لیتا ہے۔ 1992 میں کرکٹ چھوڑ چکا تھا ٹانگ کے لاعلاج فریکچر کی وجہ سے اس کے لیے کرکٹ میں واپس آنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر اس نے اللہ کے حضور دعا کی کہ اللہ اگر میں اور ہماری ٹیم ورلڈ کپ جیت گئے تو کینسر ہسپتال بن جائے گا ٹیم 76 رنز پر آؤٹ ہو چکی تھی میری موجودگی میں ڈا ئریکٹر شوکت خانم مبشر نقوی نے فون پر اس سے پوچھا کب واپسی ہے تو کہنے لگا کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ ہو رہی ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ جیت جائے گا ہم سب حیرانی اور بے یقینی سے سوچ رہے تھے کہ ہیرو کیسے نا ممکن خواب دیکھ رہا ہے، پھر وہ ورلڈ کپ بھی جیتتا ہے اور قوم کی مدد سے ہسپتال بھی بنا لیتا ہے ورلڈ کپ کے فوراً بعد وہ راولپنڈی میں ایک نمائشی میچ کھیلنے آیا مگر آدھا میچ چھوڑ کر چلا آیا میں نے پوچھا یہ کیا تو کہنے لگا کہ ٹیم کے ممبران سمجھتے ہیں کہ جہاں جہاں میں ان کے ساتھ جاؤں گا تو لوگ ان کی بجائے ہسپتال کو انعامات دیں گے ۔لہذا آج کے بعد کرکٹ ختم میری خاموشی کو دیکھ کر علی شریعتی کی بات دہرانے لگے کہ عزت، ذلت زندگی موت اور رزق کی تنگی اور فراوانی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک اشارے پر گاڑی رکی تو سڑک کنارے ایک پٹھان کھدائی کر رہا تھا کہنے لگے کہ دیکھو یہ پٹھان مانگنے کی بجائے مزدوری کر رہا ہے کیونکہ وہ اپنی خود کی عزت کرتا ہے۔ اس وقت دور دور کسی کے وہم گمان میں نہیں تھا کہ وہ سیاست میں آئے گا اور پٹھان اس پر فریفتہ ہو جائیں گے۔ میں اس کے ساتھ دوستی کا دعویدار تو نہیں ہوں مگر شوکت خانم کے لیے فنڈ ریزنگ کے لیے کام کرنے پر ہمیشہ عزت اور احترام سے ملتے اور ہر سال میری تقریب میں نوجوانوں کو خطاب کرنے آتے اور پاکستان کے وژن پر کھل کر بات کرتے وہ کسی صورت میں سیاست میں نہ آتے وہ نیشنل ایجوکیشن موومنٹ شروع کر رہے تھے۔ 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں میری تقریب کو اس لیے عین اس وقت بند کرا دیا جب وہ تقریب گاہ میں داخل ہو رہے تھے کیونکہ ان دنوں ان کے متعلق خیال تھا کہ وہ جنرل حمید گل، عبدالستار ایدھی اور صلاح الدین کے ساتھ مل کر پریشر گروپ قائم کر رہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ان کے ہسپتال میں بم دھماکا ہو گیا اور ان کو بتایا گیا کہ اس میں حکومت کا عمل دخل ہے۔ لہذا انہیں عوام کی خدمت کے لیے سیاست میں آنا ہو گا۔ 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی مگر اسٹیبلشمنٹ نے اسے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے خلاف محض دباؤ کے لیے استعمال کیا نواز شریف اس گیم کو سمجھ گئے اور عمران خان کو 35 سیٹوں کی پیش کش کی مگر چونکہ ان کا ذہن غیر سیاسی تھا تو انہوں اس آفر کو پذیرائی نہیں دی وہ 22 سال سیاست میں خوار ہوتے رہے۔ انہیں 2013 میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی طور پر کٹ ٹو سائز کیا مگر پھر انہیں ریٹائرڈ جنرلز نے سمجھایا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آپ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں جس پر وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے 2018 میں اقتدار میں ضرور آئے مگر مقبولیت اور ووٹ بنک ان کا اپنا تھا جو آج انہوں نے جیل میں بیٹھ کر،پارٹی کے سمبل کے بغیر، دو سو مقدمات اور 31 سال سزاؤں کے ساتھ بھی ثابت کیا کہ ع مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا تمام منافق اور مطلب پرست حواری ان کو مشکل وقت میں چھوڑ گئے ۔وہ سب اپنے اپنے بلوں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں ۔وہ کب دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ ہے اور ماضی میں وہ ایک آزاد خیال انسان نہیں رہا ہے مگر اس کو مجسمہ برائی ثابت کرنے والوں کو 8 فروری کے الیکشن میں عوام نے بتا دیا کہ ہیرو کو ختم کرنا ناممکن ہے اس عشق، نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت اسکے مینڈیٹ کو غیر آئینی نگران حکومتوں نے چرا لیا لیکن کیا کوئی مزاحمت کے اس استعارے کو مٹا پائے گا اس کو موت کے گھاٹ اتار دیں مگر وہ کڑووں نوجوان عورتوں، مردوں بچوں اور بزرگوں کے خون میں رواں دواں ہے وہ ان کے دلوں کا بادشاہ ہے ۔وہ بہترین ٹیم کے ساتھ ہوم گراؤنڈ پر 1988 کا ورلڈ کپ نہ جیت پایا سارا گراؤنڈ خالی ہو گیا اور وہ اکیلا میدان میں افسردہ کھڑ ا رہا مگر کمزور ٹیم کے ساتھ 1992 کا ورلڈ کپ جیت گیا۔ 2013 کا الیکشن ہار گیا 2018 میں جیت گیا۔ اسکی پارٹی کو ختم کر کے انڈر 16 کی ٹیم کے ساتھ بھی مخالفین مقابلہ نہیں کر سکے۔ اس نے کہا جیل سے دو دن رہا کریں تو پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کے عوام کس کے ساتھ ہیں۔ مجھے ایک دفعہ کہنے لگے کہ تمارا خوف دور ہوا کہ نہیں پھر قرآن کی آیات کا مفہوم بیان کرنے لگے "ہم تمہیں آزمائیں گے کبھی خوف و خطر سے، کبھی جان و مال کے نقصانات سے تو کبھی آمدنیوں کے گھاٹے سے ۔آپ اے نبیﷺ صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجئے ۔اکثر صاحبان عقل کہتے ہیں کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے نہ دیتا 9 مئی کے واقعات نہ ہونے دیتا ۔اس کو کیا پتہ تھا کہ کون اس کو ٹریپ کر رہا ہے۔سیاست کی اس بے رحم دشت سیاحی میں وہ اپنے مؤقف پر قائم دائم ہے۔ وہ ایسا فرہاد ہے جو شیریں کو غلامی سے آزاد کرائے بغیر چین نہیں پائے گا ۔ بقول اقبالؒ زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی