مختلف ملکوں میں بستی اقوام اپنے اپنے مقامی موسموں کے مطابق زندگی کے طور طریقے اور پہننے اوڑھنے کے رنگ ڈھنگ اپناتی ہیں۔ زندگی کا طور طریقہ اپنے مقامی موسم اور دھرتی سے جڑی ہوئی ثقافتی ذوق کے مطابق ہوتا ہے لیکن ہمارا معاملہ مختلف ہے ۔ہمارے اندر کا احساس کمتری یہ طے کرتا ہے کہ ہم نے کیا انداز واطوار اختیار کرنے ہیں۔نیپا میں اگلے گریڈ کے لیے آفیسرز کی ٹریننگ جاری ہے۔افسران کو جوائن کرنے سے پہلے سرکاری ہدایات تھیں کہ وہ ٹوپیس پہن کر آئیں گے۔ جون کی شدید گرمی میں جب کہ لاہور کا درجہ حرارت 50 کو چھو رہا ہے ایسے ضابطے اور اصول نافذ کرنا پرلے درجے کا احساس کمتری نہیں اور کیا ہے ؟اگر نیپا میں ٹریننگ حاصل کرنے والے آفیسرز کورس میں موسم کے مطابق عمدہ شلوار قمیص میں آئیں گے تو ان کی ٹریننگ پر کیا برا اثر پڑے گا کیا ان کی قابلیت سے متاثر ہوگی ؟ان کی صلاحیتیں گھٹ جائیں گی ؟ان سوالوں کا جواب ہمارے پاس تو نہیں۔ہم ان شہ دماغوں سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شدید گرمیوں کے موسم میں افسروں کو ٹو پیس پہنا کر ٹریننگ دے رہے ہیں وہاں پر جب تک مسلسل ایئرکنڈیشن نہیں چلے گا ٹیمپریچر بیس بائیس نہیں ہوگا بیٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک طرف تو ہم بجلی کی کمی کا رونا روتے ہیں اور اتوار کو ضروری دکانیں حتیٰ کہ بیکری اور ڈیپارٹمنٹل سٹور تک بند کرکے بجلی بچانے کا ناٹک کرتے ہیں ،دوسری طرف ہماری شاہ خرچیوں کا عالم یہ ہے کہ جون کے گرم جلتے بلتے موسم میں موٹے کپڑے پہنا کر فل اے سی چلاتے ہیں۔پاکستان کے شدید گرم موسم میں وکیلوں کو کالے کوٹ کے ساتھ ٹائی لگانا پڑتی ہے۔ کالا رنگ ویسے ہی گر می میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ یہ رنگ سورج کی شعاعوں کو جذب کرتا ہے۔ جون کے گرم ترین مہینے اور جولائی اگست کے شدید حبس زدہ موسم میں پینٹس کوٹ بغیر ائیر کنڈیشنڈ ماحول کے پہننا کسی سزا سے کم نہیں۔مگر ہمارے وکیل بھائی یہ سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ برطانوی راج میں 1327میں کنگ ایڈورڈز تھری نے قانون دانوں کے لیے سیاہ رنگ کے پینٹ کوٹ اور ٹائی کا ڈریس کوڈ متعارف کروایا تھا۔ ہمارے گرم خطے کے لیے مگر یہ ڈریس کوڈ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ،مجھے نہیں معلوم کہ ہماری وکلا برادری اس حوالے سے کیا سوچتی ہے۔دوسروں کے حقوق کے لیے دلائل کے انبار لگانے والے کیوں کبھی اپنے اس بنیادی حق کے لیے نہیں بولتے۔اس حوالے سے طے شدہ ضابطوں اور اصولوں میں اگر تھوڑی سی ترمیم زندگی آسان بنانے کے لیے کرلی جائے تو کیا حرج ہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل میں احساس کمتری کوٹ کوٹ کے بھرا ہے وہ اپنے دیسی کھانوں کو آؤٹ ڈیٹڈ سمجھتے ہیں۔انہیں میونیز ،سویا ساس، چلی سا س کی پہچان ہوگی مگر وہ میتھی دانہ اور رائی میں فرق نہیں بتاسکتے۔ زیرہ اور سونف کی پہچان بھی شاید نہ ہو مگر اٹالین ہرز کا ضرور پتہ ہوگا۔آج کل پیزا برگر ،شو ارما ،سٹیک جیسے پردیسی کھانوں کا رواج ہے ۔حرج اس میں کچھ نہیں مگر ساتھ اپنے دیسی کھانے کدو گوشت، آلو گوشت ،ٹینڈے، کریلے ،بھنڈیاں کھانے کی بھی تو عادت ڈالیں جو صحت کے لیے بہترین ہیں۔ شاید ان کے اندر ایک پیدائشی احساس کمتری ہے کہ ہم پزا برگر کھا تے ہوئے زیادہ ماڈرن اور کول دکھائی دیتے ہیں۔موسم گرما شروع ہوتا تو لان کے نئے کپڑوں کی خریداری ہماری امی جان بڑے ذوق و شوق سے کرتیں۔ تتلیوں کی پروں جیسے حسین رنگوں کے ہلکے پھلکے لان پرنٹس پہننا بہت اچھا لگتا۔موسمی شدت کے پیش نظر انہیں خواہ مخواہ کے ڈیزائنوں سے بھاری نہ کیا جاتا ۔ آج کل الٹی گنگا بہہ رہی ہے گرمیوں کے کپڑے بنانے والے برینڈ ز سخت گرم موسم میں آخر کیو ں آرگنزا اور سلک کے دوپٹوں والے بھاری بھرکم کڑھائیوں والے لباس ڈیزائن کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی طور ہمارے سخت گرم حبس زدہ موسم سے میل نہیں کھاتے۔پہلے ہمارے گھروں میں گرمیوں کی لو میں دودھ کی نمک والی کچی لسی اور برسات میں لیموں کی سکنجبین مہمانوں کو بھی پیش کی جاتی تاکہ موسم کے اثرات سے بچا جاسکے۔ اس صحت بخش روایت کو بھی ہم خیر باد کہ چکے کہ کولا ڈرنکس اور ڈبوں کے جوس پیش کرنا" ماڈرن " دکھائی دیتا ہے۔ مکان پہلے ہمارے مقامی موسموں کے مطابق بنائے جاتے تھے اونچی چھتیں بنائی جاتیں تاکہ گرمیوں کی طویل دوپہروں کی گرمی کا احساس کم ہو برآمدے اور کھلے دالان ہوتے تھے۔گرمیوں کے موسم میں لوگ صحن میں چھڑکاؤ کرکے چارپائیاں ڈال کر بیٹھتے آسمان پر ستارے کے جھرمٹ دیکھے جاتے اور شام کو چلنے والی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں گھروں کی تعمیر میں کھلے دالان اور برآمدوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی اب بند ڈبوں کی طرح کے گھر بنائے جاتے ہیں ۔لوڈشیڈنگ میں یو پی ایس بھی بند ہو جائے تو ہوا کا گزر نہیں ہوتا بند گھر میں دم گھٹنے لگتا ہے۔جنہیں میسر ہے وہ گرمیوں میں دوپہریں اور شامیں ائرکنڈیشنر کمروں میں گھس کے گزار دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں میں صحن میں چھڑکاؤ کیا جاتا چارپائیاں بچھائی جاتیں پیڈسٹل فین لگائے جائے چند برس پیشتر کی بات ہے کہ گرمیوں کی شامیں کمروں کے اندر گزارنے کا رواج نہ تھا۔اب تو لگتا ہیکہ وہ خالص شام اس شہر میں آتی ہی نہیں جب ہر شے کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتی تھی پھر شام کے بھی کئی رنگ ہوتے تھے۔ دھوپ کے جاتے سمے عصر کا وقت جب جاتی دھوپ آلکسی سے دیواروں پر پڑی ملتی وہ’’ لوڈا ویلا ‘‘کہلاتا۔مغرب کی بھر پور سرمئی شام ’’ڈیگر ویلا ‘‘کہلاتا۔اب تو خیر اس شہر میں دن چڑھتا اور رات آجاتی ہے مگر اعصاب کو پرسکون کرتا اندھیرا اب ناپید ہے۔ رات کو ہم نے دن بنا کر صرف فطرت کے توازن کو خراب نہیں کیا اپنی زندگیوں سے بھی توازن اور سکون کو رخصت کر دیا ہے۔ آج کا کالم پڑھ کر سوچئے گا ضرور کہ ان تمام کاموں کی سمت درست کرکے ہم اپنی زندگیوں کو آسان بنا سکتے ہیں۔۔کاش کہ بناسکیں!!