شب وروز کے جھمگھٹوں میںیہ بھول گیا کہ یہ منیر ہیں یا جالب مگر شدت سے یہ شعربار بار یاد آرہا ہے:بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے؟شاعر سے معذرت کے ساتھ ،ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں،مر کیوں نہیں جاتے؟۔اقبال کہتے تھے کہ جُدا ہو دیںسیاست سے،تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔مگر اس سے پہلے اٹلی (فلورنس)کا میکائولی کہتا تھا کہ سیاست کا مذہب یا اخلاق سے کیا تعلق ؟دنیا سکڑتی سکڑتی گائوں اور محلہ بن گئی۔سب کی سب کو خبر ہے۔جمہوریت جہاں جہاں ہے،اُن میں کتنے مسلمان ہیں اور کتنے غیر مسلم ؟اس پر بات پھر کبھی۔جہاں جہاں جمہوریت کامیاب ہے وہاں مذہب کا کتنا پرچار ہوتا ہے اور کتنی پریکٹس؟یہ بھی الگ بات ہے اس لیے یہ کہانی بھی پھر سہی۔ہمارے ایک ٹیچر ہوتے تھے،جاوید شیخ صاحب۔اُن کا پسندیدہ سوال تھا اسلامی اور مسلم ریاست میں کیا فرق ہوتا ہے۔مجھے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ایک امتحان میں،انہوں نے یہی سوال پوچھ لیا۔میں نے انہی کا جواب ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ عینک کے شیشے صاف کرتے ہوئے مسکرا پڑے۔ٹریک پر واپس آتے ہیں،بات ہو رہی ہے جمہوریت کی،اقبال کی بھی اور میکائولی والی بھی۔آج کل بار بار سوال اٹھ رہا ہے کہ جو کچھ ہم پریکٹس کر رہے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے؟روزانہ الیکٹرانک میڈیا پرٹی ٹوینٹی ٹائپ سوال اٹھتے ہیں اور پھر ون ڈے ٹائپ جوابات سکرینوں پر ٹمٹما اٹھتے ہیں۔جیسے بشریٰ بی بی جیل سے بنی گالا کیونکر پہنچیں؟وکیل بار بار خاور مانیکا سے اتنی بدتمیزی کیوں کر رہا تھا؟عون چوہدری کے سامنے یہی وکیل بھیگی بلی کیوں تھا؟وغیرہ وغیرہ۔ علامہ اقبال مصورِ پاکستان ہیں۔وہ فرماتے تھے،جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے۔ہم زندہ قوم ہیں اس لیے آجکل ہم بندوں کو گن گن کر تولتے ہیں۔یہ نواز شریف ہیں۔وہ عمران خان ہیں۔شمال میں بی بی بشریٰ ہیںاور جنوب میں جنرل باجوہ۔یہ سب گننے والے نہیں تولے جانے والے لوگ ہیں۔ابھی میں نے پوری دیگ میں سے چند نمبر ون دانے پیش کیے ہیں۔ورنہ لمبی قطار ہے جنہیں گنا نہیں جاتا،صرف اور صرف تولا جاتا ہے۔ایسے عالم میں۔۔خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے صاحب۔یہ جمہوریت تھی،اسے بکھرنا ہی تھا۔جب ضیاء الحق فضا میں ہی چل بسے تو الیکشن88ء کروانا پڑا۔بہت سارے اگرز اور مگرز کے ساتھ بی بی وزیرِ اعظم ہائوس پہنچ گئیں۔ہر جگہ ایک ہی جملہ تھا"جمہوریت بہترین انتقام ہے"۔یہی جملہ آج کیسا لگتا ہے؟ہم رہے نہ ہم،تم رہے نہ تم۔جمہوریت اور انتقام دونوں کے چہرے بدل گئے ہیں۔دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں بھی یہ دیسی گھی جیسی نہیں،ڈالڈا ہی سمجھ لیں۔ایک وقفے کے بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ووٹ ڈالا جاتا ہے اور جمہور کو یقین دلا دیاجاتا ہے کہ یہ حکومت آپ کی ہے،آپ کی وجہ سے ہے اور آپ ہی کے لیے ہے۔ابراہم لنکن امریکہ کا پاپولر صدر تھا۔اس کی جمہوریت کی تعریف کچھ ایسے ہے۔It is of the people,for the people and by the people.۔ایک دن کلاس میں جمہوریت پر بحث ہو رہی تھی۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑے جذباتی انداز میں جمہوریت کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔میں نے وائٹ بورڈ پر۔۔ForکوFarکر دیا،ByکوBuyکر دیا اورOfکوOffکر دیا۔کلاس میں قہقہ لگا اور بات Conclude ہو گئی۔جمہوریت اکیلی نہیں ہوتی۔لوگ،ریاست،معاشرہ،سیاست اور اوقات ہر جگہ مختلف ہوتی ہے۔جمہوریت کی شکل،روپ رنگ ڈھنگ،ادا صدا،عشوہ غمزہ سب مختلف ہو جاتے ہیں جب بات ٹوٹے پھوٹے معاشروں کی ہوتی ہے۔پہلے معاشرہ رفو اور مرمت کرو،شاید جمہوریت وی ریپئر ہو جائے۔ جس ملک کی آدھی زندگی۔۔عزیز ہم وطنو کی صدائے بازگشت ہو۔جہاں آئین، قانون،جمہوریت،الیکشن اور الیکشن کمیشن اپنے جھگڑے عدلیہ کے ذریعے طے کرتے ہوں۔جہاں ہر سیاست دان،ہر سیاسی جماعت ہر وقت حکومت میں آنے کے لیے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ملے۔جہاں ہر سیاسی جماعت کسی فرعون کی جماعت لگے،ایسی لمیٹڈ کمپنی جس کے ماتھے پر یس باس کا بورڈ لگا ہو۔جہاں مالٹے بیچنے والے سے موٹر سائیکل چلانے والے تک اور چنگ چی مافیا سے نام چین ڈیپارٹمینٹل سٹورز تک قانون شکنی کرتے ہوں۔جہاں حکومت میں آنے کا مطلب کاروبار کا پھیلائو اور بزنس کی پرموشن ہو۔جہاں ہر حلقے میں امیدوار کو پارٹی ٹکٹ حلقے کے عوام سے پوچھ کر نہیں امیدوار کی دولت اور خوشامد کو دیکھ کر دیا جائے۔جہاں ہر سیاستدان ایک ہی دربار میں باریابی کا منتظر ہو۔ایسا معاشرہ جہاں چپڑاسی سے بادشاہ تک ایسی سیڑھی پر سوار ہو جہاں اوپر والے کو حسرت سے اور نیچے والے کو حقارت سے دیکھا جائے۔ایسے دیس میں جمہوریت کا ذکر ایسے ہی ہے جیسے،آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں۔اس بستی میں جہاں پتھروں کا کاروبا رہو رہا ہو،وہاں آئینہ سازوں کا نوحہ اور ماتم مٹھی میں ریت جیسا ہے۔عذابوں میں رہ کر،ذکر ہے ثوابوں کا۔الیکشن کی باتوں میں،جمہوریت اضافی ہے،بات کرنے والوں کے لیے۔۔بس اک نگاہ کافی ہے۔جمہوریت ایسے ہی ہے ہمارے ہاں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔جیسی روحیںویسے فرشتے۔جیسے لوگ ویسی جمہوریت۔وزیرِ اطلاعات کی طرح یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سوال سارے غلط تھے،جواب کیا دیتے۔سوال سارے درست ہیںمگر جواب کیا دیتے؟ایسے میں کیسا نوحہ؟کیسا مرثیہ؟کہاں کا ماتم ؟کہاں کا بین؟ہمارے ہاں شرح خواندگی کی بجائے جہالت کا ریٹ زیادہ ہے۔ہماری یہ بستی۔۔اب خُدا کی بستی نہیں رہی۔یہ اب رئیل اسٹیٹ بستی ہے۔سر سبز گائوں تیزی سے سیمنٹ،اینٹ، بجری اور لوہے کا جہنم بنتے جا رہے ہیں۔اور گائوں والے سارے بھاگ بھاگ کر اربن شہروں میں پناہ لے رہے ہیں۔جب ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ پر،اپنے اپنے مقام پر۔۔حد کو بے حد بنا چکے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔اس درد کی دنیا سے گذر کیوں نہیں جاتے؟