کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا آجکل یہی حالت پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر جانے والوں کی ہے۔ جو بھی لوگ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر گئے ہیں ان کا برا حال ہے ۔ حلقے کے لوگ نالاں ہیں۔ کارکن ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ دوسری جماعتوں میں ان کی جگہ نہیں بن رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے منحرفین کے دو ایڈیشن آچکے ہیں۔ جہانگیر ترین کی استحکام پارٹی اپنے بننے کے بعد جلد ہی استحکام کھو بیٹھی ہے۔ اس پارٹی کی مثال اس فلم کی تھی جس میں بہت سے سپر اسٹار ہو اور فلم پہلے ہفتے میں فلاپ ہو جائے۔ اس فلم میں اداکار تو بہت ہوتے ہیں مگر کہانی کوئی نہیں ہوتی اور کہانی کرداروں سے بنتی ہے، اداکاروں سے نہیں۔استحکام پارٹی کا شور شرابا تو بہت تھا مگر نکلا کچھ نہیں۔یہی حال اب کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کا ہے۔ جس کے روح رواں سبق وزیر اعلیٰ کے پی کے جناب پرویز خٹک ہیں۔ اس پارٹی کے قیام کے ایک گھنٹہ بعد ہی بہت سے لوگوں نے اس سے لا تعلقی کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ صوبہ پنجاب اور کے پی کے میں ناکام ریلیز کے بعد اب کسی نئی پارٹی کا اعلان کس نئے صوبے سے ہوگا ،یہ بات ابھی قبل از وقت ہے۔ تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ جب سابق جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی تب بھی پیپلز پارٹی میں سے کئی جماعتیں نکلی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جتوئی گروپ۔ پاکستان پیپلز پارٹی شیر پائو گروپ و غیرہ۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ میں سے پاکستان مسلم لیگ ق نکلی۔مگر مشرف کی وردی اترتے ہی پاکستان مسلم لیگ ق میں وہ دم خم نہ رہا۔ اب بھی پرانے لوگ وہی پرانا فارمولہ اپنارہے ہیں۔ جس کا وہی پرانا رزلٹ نکلے گا۔پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ عمران خان کا ووٹ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا ووٹ جناب میاں محمد نواز شریف کا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے وہ بھٹو کے جانشین کو ملے گا چاہے وہ بے نظیر ہو یا بلاول بھٹو یا آصف زرداری۔اب جب اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی ہے نگران حکومت قائم ہونی چاہیے اور اس کا کام صرف الیکشن ہونا چاہئے۔ پہلے پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومت نے سب کچھ کیا الیکشن کے سوا۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے جس کا جو کام ہے وہ کرتا نہیں ۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑائے کھڑا ہے۔استاد کی توجہ تعلیم کی طرف نہیں۔ ڈاکٹر مریض کے علاج سے باغی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں لیکن پرائیویٹ پریکٹس میں تو ہر دم تیار ہیں۔ ہمارے ہاں کئی اداروں نے خود ساختہ ذمہ داری لے رکھی ہے۔وہ تعلیم ، صحت، معاشیات، سیاست سب کاموں کے ماہر ہیں۔ مقدموں کا ایک پہاڑ عدالتوں میں پڑا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ چاند تک پہنچ گئے ہیں۔اس وقت دنیا کی ٹاپ کمپنیوں کے چیف انڈین ہیں۔ گوگل جیسی کمپنی کا ہیڈ انڈین ہے اور ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہم یوریا کھاد سے دودھ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہماری صنعت اتنی ترقی کر گئی ہے کہ وہ چیز جو ساری دنیا کھیتوں میں اگاتی ہے ہم نے فیکٹریوں میں بنانے شروع کر دی ہے۔ ان ارگینک کیمسٹری میں جتنی ترقی پاکستان کی عوام نے کی ہے اس کا جواب دنیا کے پاس نہیں۔ ایک چیز ہو تو ہم گنوائیں۔ کالی مرچ، سرخ مرچ، دودھ، کوکنگ آئل، دیسی گھی، کونسی آئٹم ہے جو پاکستان میں فیکٹریوں میں تیار نہیں ہورہی۔ بس ایک کسر باقی ہے ہمارے معدے اور جگر گوشت کے ہیں جس دن یہ پلاسٹک کے بن گئے ہماری یہ انڈسٹری ساری دنیا میں پھیل جائے گی۔ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں کچھ نہیں ہو رہا۔ غلط کہتے ہیں۔ان کو نظر نہیں آتا پاکستان میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو ساری دنیا میں نہیں ہو رہا۔دنیا بھر میں سیاسی پارٹیاں بنتی ہیں۔ وہاں اس کام میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہاں ایک گھنٹے کے نوٹس پر سیاسی پارٹی بن جاتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں دو پارٹیاں بن کر بکھر بھی گئی ہیں۔ہم دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو 75سال سے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ نازک دور ہے کہ ختم آنے میں نہیں آتا۔تین نسلیں ختم ہو گئی ہیں اور ہم ابھی ناز ک دور سے گزر رہے ہیں۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم ابھی نازک دور میں ہیں۔ یہاں خزانہ ہمیشہ خالی ملتا ہے۔ ہر کسی کو ملک بہت برے حالات میں ملتا ہے اور ہر کوئی ملک کا ترقی کی شاہراہ پر چھوڑ کر جاتا ہے۔یہ کیا ڈرامہ ہے جس کا نہ کوئی پلاٹ ہے اور نہ کہانی۔ ہر کردار اپنے ڈائیلاگ بول کر چلا جاتا ہے۔ کہانی وہیں پر ہے جب پہلی بار پردہ اٹھا تھا اب ہر ایک سین وہی پرانا سین ہے۔ ڈائیلاگ پتہ نہیں کس نے لکھے ہیں۔ ہر ایک کردار اپنی باری پر وہی ڈائیلاگ دہراتا ہے۔ ہمیں خزانہ خالی ملا۔ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ جمہوریت کو خطرہ ہے۔آئین خطرے میں ہے۔ مجھے ایک بات کی سمجھ آج تک نہیں آئی۔ دوسرے ملکوں کا نظام کیسے چل رہا ہے جہاں پر نظام کو بچانے والے بھی نہیں ہیں۔ وہ تو خدا کا شکر ہے پاکستان میں نظام کو بچانے والے ہیں ورنہ یہ ملک تو کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ وہ جو ہوا وہ بھی خدا کی مرضی تھی۔ وہ ناشکرے لوگ تھے۔ایک ترقی یافتہ مستقبل چھوڑ کر انجانے سفر پر چل کھڑے ہوئے۔ اب اگر وہ ترقی کر گئے ہیں اس میں ہمارا کیا قصور اور انکا کیا کمال ہے۔ہم ایک مضبوط نظام کا حصہ ہیں اور ہم کو اس پر فخر ہے۔ ٭٭٭٭٭