گذشتہ برس اقوام متحدہ ڈیویلپمنٹ پروگرام یو این ڈی پی کے نائب سیکریٹری جنرل اور ریجنل چیف Kanni Wignaraja نے پاکستان کے دو ہفتے کے ورچوئل ٹور کے بعد اپنی رپورٹ این ایچ ڈی آر میں بتایا تھا کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4 ارب ڈالر یعنی تقریباً 4250 ارب روپے کی مراعات لیتی ہے، جس میں پاکستان کا طاقتور کارپوریٹ سیکٹر ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 4.5 فیصد یعنی 4.7 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے، جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں، اسکے علاوہ جاگیردار، زمیندار، وڈیرے اور بڑے بزنس مین جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق کی بنا پر پارلیمنٹ میں اثر رکھتے ہیں، مراعات حاصل کرنیوالوں میں پیش پیش ہیں۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف تک اپنے متعدد جائزوں میں واضح کر چکا ہے کہ پاکستان کا اکنامک ماڈل کارآمد نہیں ہے، جس کے تحت غریب اشرافیہ کا پیٹ بھر رہا ہے، اربوں ڈالر کی مراعات اشرافیہ کو آخر کتنی دیر فراہم کی جاسکتی ہے؟ موجودہ نامساعد حالات میں معاشی و اقتصادی بحران کے باعث جہاں عام پاکستانی حد سے زیادہ مایوس ہوچکا ہے وہاں اس صورتحال میں ایسی اطلاعات بھی سامنے ہیں جو کسی ملک و ملت کیلے سود مند نہیں، 2023 کے صرف سات ماہ کے دوران 4 لاکھ 50 ہزار پاکستانی اچھی نوکریوں کی تلاش میں پاکستان سے باہر بیرون ملک چلے گئے تھے، امیگریشن بیورو کے اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان 450000 پاکستانیوں میں سے  12 ہزار 787 افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان سے برین ڈرین ہو رہا ہے، 26 ہزار 405 پاکستانی انتہائی ہنرمند قرار دئیے گئے جبکہ ایک لاکھ 64 ہزار 155 ہنر مند افراد کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، ایک لاکھ 98 ہزار غیر ہنرمند افراد بیرون ملک جانے والوں میں شامل ہیں، جن کو اچھے روزگار کی صورت میں سنہری مستقبل کی امید ہے، لیبر کے علاؤہ کاشتکار، تعلیمی ماہرین، ڈاکڑز، انجنیئرز، آئی ٹی سپشلسٹ اور اکاونٹس وغیرہ بیرون ملک بڑی تعداد میں جا چکے ہیں، سب سے زیادہ پاکستانی یعنی 2 لاکھ 5 ہزار اور 515 نے سعودی عرب، ایک لاکھ 21 ہزار 745 نے متحدہ عرب امارات، 34 ہزار 140 نے اومان، 35 ہزار 637 نے قطر، 7 ہزار 441 نے بحرین کا رخ کیا، 16 ہزار 166 پاکستانی ملائشیا بھی گئے، چائنا میں 990 پاکستانی پہنچے، ان ممالک کے علاؤہ ساؤتھ کوریا، جاپان، جرمنی، برطانیہ، گریس، اٹلی، رومانیہ اور سائیپریس بھی متعدد ہم وطن جا پہنچے، گزشتہ برس پی ڈی ایم سرکار کی حکومت میں 2016 کے بعد بڑی تعداد میں 8 لاکھ 30 ہزار پاکستانی بیرون ملک چل دئیے، 2016 میں 8 لاکھ 39 ہزار 353 جبکہ 2015 میں 9 لاکھ  46 ہزار 571 پاکستانی بیرون ملک گئے، یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2018 سے 2021 تک پاکستانیوں کی بیرون ملک بہتر روزگار کی تلاش میں جانے والوں کی تعداد میں واضح کمی سامنے آئی، اس کے پیچھے کیا اسباب ہیں؟ کم ازکم ان کا ادراک کر لیا جائے تو تریاق کی جانب پیش قدمی زیادہ مشکل نہ ہوگی، پاکستان کو اللہ رب العزت نے کثیر معدنیات سے نواز رکھا ہے، ریکوڈک اس کی عام فہم مثال ہے، کوئلے کے ذخائر، کوسٹل ہائی وے، سی پیک اور محل و وقوع کے اعتبار سے مادر وطن کی جغرافیائی حیثیت جسے سٹریٹیجک حیثیت کے نام سے نمایاں طور پر پکارا جاتا ہے، ان سے استفادہ حاصل کرنا کیا کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل پوگا؟ کیا ان معدنیات کے ثمرات عوام سمیت پائے گی؟ لیکن افسوس حالت بد حال یہ ہے کہ مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل او تین ماہ قبل خبردار کر چکی ہے کہ ملازمتوں میں کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پاکستان کی پیش رفت کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل سکتی ہے، آئی ایل او کے خطرناک تخمینے کے مطابق 2023 میں پاکستان کی آبادی سے روزگار کا تناسب 47.6 فیصد پر بحران سے پہلے کے رجحان کی لکیر سے بہت نیچے گر گیا جبکہ بے روزگار افراد کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے جو 2021 کے بعد سے 15 لاکھ کا اضافہ ہے، لیبر مارکیٹ کے بڑھتے ہوئے چیلنجز پاکستان کی مجموعی معاشی بدحالی کی عکاسی کرتے ہیں، کووڈ کی عالمی وبا اور 2022 کے سیلاب اور حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے چیلنجز مزید بڑھ گئے جن کے تاحال خدشات موجود ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئندہ ماہ 8 فروری کو عام انتخابات ہیں اور کسی جماعت کے پاس عام آدمی،معیشت کی بحالی اور ترقی کا کوئی بھی منصوبہ اعلان تک کی صورت میں سامنے نہیں آ سکا، اس بے یقنی کا خاتمہ کیے بغیر کوئی حکومت چل نہیں سکے گی؟ جبکہ معشیت سے متعلقہ شعبہ جات کا موقف ہے کہ انتخابات کی شفافیت پر جتنے اعتراضات قبل از انتخابات ہی جنم لے چکے ہیں، ان حالات میں معشیت کو مضبوطی کی جانب گامزن نہیں کیا جاسکتا، ایک ملیشیا کا ماڈل ہے، ہر پاکستانی ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے کا قرض دار ہے، ملک میں بجلی نہیں، روزگار نہیں، گیس نہیں، صحت کی سہولتیں نہیں، موجودہ نامساعد حالات بلاشبہ ہر محب وطن پاکستانی کا دل دکھوں سے جھلنے کیے ہوئے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ ان مسائل اور بحرانوں کو حل نہیں کیا جاسکتا، آسان حل حقیقی پالیسوں کی تشکیل اور ان کا نفاذ ہے، صرف شعبہ زراعت، ٹورازام، شفافیت اور وطن عزیز میں موجود معدنیات سے سہی معنوں میں استفادہ حاصل کیا جائے تو مادر وطن دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرسکتا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں سازگار اور پر تحفظ سرمایہ کاری کے مواقعے فراہم کر کے بھی اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں لیکن شرط یا اصول یہ ہے کہ اشرافیہ کو راضی کر لیں یا عوام کو! وقت فیصلے کا متقاضی ہے اور اس بابت عوام کی اکثریت کا انتخاب نوشتہ دیوار ہے، کس کو فسانہ غم سنائیں؟ عام آدمی کی سنتا کون ہے؟