محرم الحرام کے یہ ایام خانوادہ رسالتمابﷺکی عظیم قربانیوں کی یاددلاتے اور شہدائے کربلا کی بارگاہ میں عقیدتوں اورمحبتوں کے اہتمام سے آراستہ ہیں۔ بلاشبہ کربلا کے ریگزار پہ جو معرکہ بپا ہوا اور جو لازوال شہادتیں پیش ہوئیں، تاریخ ایسے مناظر اور مظاہر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ،کلیدی اور معتبر ہے کہ ایسا کیا ہونے جارہا تھا، جس پہ کمپرومائز نہیں ہوسکتا تھا اور جس کے نتیجہ میں کربلا کے ریگزار شہیدوں کے لہو سے مشکبوہوگئے۔ اقبالؔنے اس کی نقشہ کشی کی: چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت حر یت را زہر اندر کام ریخت یعنی جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑا اور حریت کے حلق میں زہر انڈیلا، اسلام کا سیاسی نظام جو با اختیار اور باوقار شوریٰ اور قرآنی اصولوں کے ماتحت تھا، پامال ہونے لگا تو حسین ؓ پر کلمہ حق سر بلند کرنا لازم تھا۔ اس کائنات میں حاکمیت اعلیٰ، اللہ کے علاوہ کسی اورکو سزاوار نہیں۔ یعنی حاکمیت کی جملہ صفات اور تمام اختیارات صرف اللہ ہی میں مرکوز ہیں۔ وہی انسانوں کا حقیقی فرمانروا ہے۔ انسانی معاملات میں حاکمیت کا حق صرف اْسی کو حاصل ہے۔ اس کی ربوبیت مسلمہ ہے۔ خدا کے احکام اور فرامین انسانوں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہی اس کے احکام اور اس کی ہدایت انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ گویا رسول انسانی زندگی میں خدا کی قانونی حاکمیت"Legal Sovereignty"کا نمائندہ ہے اور اس بناء پر اس کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہے۔ خدا ہی کا یہ حکم ہے کہ رسول کے امر و نہی اور اس کے فیصلوں کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے اور اس اطاعت و فرمانبرداری پر اس کے دل میں کوئی ناگواری پیدا نہ ہو۔ ورنہ ایمان سلامت نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا حکم قرآن کی رْو سے’’ سپریم لا‘‘ ہے، جس کے مقابلے میں اہلِ ایمان کے پاس اطاعت و فرما نبرداری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں اور کسی امر پر اللہ اور اس کے رسول نے اگر کوئی سسٹم وضع کردیا،کوئی فیصلہ دے دیا تو اس سے متصادم و متقابل،مسلمان از خود فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ایسے احکام اور فیصلو ں سے انحراف ایمان کی ضد یعنی کفر ہے۔ قرآن کی رُو سے انسانی حکومت کی صحیح صورت صرف یہ ہے کہ ریاست خدا اور رسول کی قانونی بالا دستی تسلیم کر کے، اس کے حق میں حاکمیت سے دستبردار ہوجائے اور حاکم حقیقی کے تحت خلافت(نیابت) کی حیثیت قبول کر ے۔ اس حیثیت میں اس کے اختیارات خواہ تشریعی ہوں یا عدالتی اور انتظامی، تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے ساتھ محدود ہوں گے۔ خلافت کا تصّور قرآن نے عطا کیا، وہ یہ ہے کہ زمین میں انسان کو جو بھی اختیارات حاصل ہیں، وہ خدا کے عطا کردہ ہیں، اس کی بخشی ہوئی طاقتوں اور قدرتوں کو اس کے عطا کردہ اصول وضوابط کے مطابق اس قانون کے تحت استعمال کر ے کہ انسان یہاں خود مختار نہیں بلکہ اللہ کا خلیفہ ہے، جیسا کہ سورہ البقرہ اٰیت31میں ہے:اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی اس نیابت اور خلافت کا سزاوارکوئی ایک خاص طبقہ، خاندان یا گروہ نہیں بلکہ اس کا جائز اور صحیح حقدار وہ جماعت اور کمیونٹی ہے، جو مذکورہ تمام اصولوں کو تسلیم کر کے، انہی خطوط پہ ریاست کو قائم کرے، گویا اہل ِ ایمان کی جماعت کا ہرفرد خلافت میں برابر کا حصہ دار ہے۔ کسی ایک طبقے یا گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خلافت کو سلب کر کے انہیں اپنے اندر مرکوز کر کے، از خود خلافت کا دعودار ہوجائے، یہی امر اسلامی خلافت کو ملوکیت، طبقاتی نظام اور مذہبی پیشوائیت پر مشتمل نظام ہائے حکومت سے الگ کر کے اسے جمہوریت کی طرف موڑتی ہے۔ لیکن اس میں اور مغربی تصوّر جمہوریت میں بھی اصولی فرق ہے کہ مغربی تصوّر جمہوریت عوامی حاکمیت "Popular Sovereignty" کے اصول پر قائم ہے، اس کے برعکس اسلام کی’’جمہوری خلافت‘‘میں خود عوام خدا کی حاکمیت تسلیم کر کے، اپنے اختیارات کو بر ضاورغبت قانونِ خداوندی کی حدود میں محدود کر لیتے ہیں۔ اس سے اگلا قدم ریاست کا قیام اور اس کی تشکیل ہے۔ اس نظام خلافت کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہوگی، وہ اللہ کے احکام کی پابند ہوگی، اس ریاست میں اللہ کی رضا اور احکام سے متصادم کوئی قانون وضع نہیں ہوسکتا، اس ریاست کا پورا نظام، اس کی ترتیب و تشکیل، سربراہِ مملکت کا انتخاب اہل ِ ایمان کے باہمی مشورے سے ہوگا۔ یہ انتخاب براہ ِ راست ہو یا بالواسطہ یا اْولی الامر کے ذریعے اس ریاست کا نظام چلانے کے لیے اْولی الامربھی بڑی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، جن کے بارے میں قرآن نے سورہ النسا ء کی آیت:59 میں کہا:اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اْن لوگوں کی جو تم سے اولی الامر ہوں ۔ خلافت اور شریعت کا نظام چلانے کے لیے، ایسے لوگوں کا انتخاب ضروری ہے جو دل و جان سے اس کے مؤ ید و علمبردار ہوں، نہ اس کے مخالف و متصادم۔ گویا کہ کوئی ایسا شخص اْولی الامر کی اس کمیٹی کارْکن نہیں بن سکتا جو ظالم، فاسق و فاجر، خدا سے غافل اور حد سے گزر جانے والا ہو، بلکہ خدا ترس، نیک، صالح اور ایمان دار ہو۔ ہمارے فقہاء اس امر پر متفق ہیں کہ کوئی ظالم اور فاسق امامت کا اہل نہیں، اس کی خلافت باطل ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو اس منصب پر مسلط کر لے تو لوگوں پر اس کی ابتاع اور اطاعت لازم نہیں۔اسی طرح عہد ے اور ذمہ داریوں کے منصب تقسیم کرنے کے حوالے سے بھی تصریح فرمادی، جیسا کہ سورہ النساء کی آیت:58 میں ہے کہ:۔اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل ِ امانت کے حوالے کرو ۔ اسی طرح اسلامی ریاست کے دستور جن بنیادی اصولوں پر قائم ہے، اس میں’’ایگزیکٹو‘‘اور اس کے اختیارات، جو کہ حدود اللہ کے پابند اور خدا اور اس کے رسول کے قانون کے حصار میں ہوں گے، جن سے سَرِمْواِعراض واِنحراف ممکن نہیں۔ مقننہ "Legislature"، اس کے اختیارات قانون سازی محدود اور اللہ اور اس کے حدود و اصولوں کے تحت کام کر ے گا۔ یہ مقننہ اللہ کے عطا کردہ احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح کر سکتی ہے، اس پر عملدرآمد کے لیے ضمنی قواعد تجویز کرسکتی ہے، ردّو بدل نہیں کر سکتی۔ وہ امورجن کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے کوئی قطعی آرڈر عطا نہیں فرمایا، ان میں اسلام کی سپرٹ اور اس کے اصولوں کے مطابق قانون سازی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسلامی ریاست میں جوڈیشری آزاد ہوگی۔ اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔ ریاست کے قیام کا بنیادی مقصدسوسائٹی میں عدل و انصاف کا قیام اور ظلم و جبر کاخاتمہ اور اس کے ساتھ، حکومت کی طاقت اور وسائل سے اقامتِ صلوۃو زکوٰۃ کا قیام ہے۔ اس کے ساتھ سوسائٹی میں بنیادی انسانی حقوق، جن میں جان، مال،عز ت، نجی زندگی، اعتقاد کی آزادی و غیرہ دستیاب ہو۔ مذکورہ اصول و ضوابط کی روشنی میں ایک اسلامی ریاست معرض عمل میں آتی ہے۔ جس میں قانون خداوندی کی بالادستی، نظام عدل کا قیام، لوگوں کے درمیان مساوات، حکومت عوام کے امور کی ذمہ دار اور ان کے سامنے جوابدہ، مشاورتی نظام اور اس کے لیے شوروی ہیئت"Consultative body"اطاعت فی المعروف، اقتدار کی طلب و حرص و ہوس کی ممانعت، ریاست کا مقصد ِوجود اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر لازم۔ نبی اکرمﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو خلافتِ راشدہ کی تشکیل انہی خصوصیات کی بنیاد پر ہوئی۔ آنحضرتﷺنے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا، لیکن آنحضرت ﷺ کے تربیت یا فتہ صحابہ و اہل بیت جانتے تھے کہ شوروی خلافت کا تقاضا کیا ہے۔ چنانچہ کسی شخصی اقتدار اور خاندانی حکمرانی کی بنیاد نہیں ڈالی گئی۔ خلافت کے حصول کے لیے کسی نے کوئی لابنگ نہیں کی۔ نبی اکرم ﷺ کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کو حضرت عمر ؓ نے نامزد کیا اور مدینے کے تمام لوگ جو دراصل خطّے میں عملاً نمائندہ حیثیت کے حامل تھے، کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر بر صا و رغبت ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضر ت ابو بکر صدیقؓ کا آخری وقت آیا تو آپؓ نے حضرت عمرؓ کے حق میں وصیت لکھوائی اور پھر مسجدِ نبوی میں لوگوں کو جمع کیا اور کہا:۔ ’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو جسے مَیں اپنا جانشین بنا رہا ہوں؟خدا کی قسم مَیں نے رائے قائم کرنے میں اپنی تمام توانائی صرف کی اور ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی، اور مَیں نے اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن خطاب کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے، لہٰذا اس کی سنو اور اطاعت کرو‘‘لوگوں نے باآواز ِ بلند کہا’’ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘‘