عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہمارا رشتہ ساھوکاروں کے منظم گروہ کے سربراہ اور ایک ایسے مقروض ملک کے باہمی تعلق کا ہے جس نے قسطوں کی مستقل ادائیگی کی شرائط پر بے شمار قرض لے رکھا ہو۔ ساھوکار خواہ چند لاکھ قرض دینے والا مہاجن ہو یا حکومتوں کو قرض دینے والا پیرس کلب یا کوئی عالمی بینک ان دونوں کی اپنے مقروض کے کاروبار کے ساتھ ایک مسلسل ہمدردانہ وابستگی موجود رہتی ہے جو عموماً بظاہر خیرخواہی معلوم ہوتی ہے۔ مہاجن یا بنیئے نے اگر کسی دُکاندار کو قسطوں پر قرض دے رکھا ہو تو اس کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مقروض شخص کی دُکان چلتی رہے تاکہ سود سمیت اصل زر کی جو قسط اسے ملتی ہے اس میں گڑبڑ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی مقروض کی دُکان گھاٹے میں جانے لگتی ہے تو ساھوکار اُسے مزید قرضہ دیتا ہے تاکہ وہ دُکان میں کچھ اور سامان ڈال کر اپنے کاروبار کو زندہ کر لے۔ بظاہر یہ ایک مہربانی لگتی ہے مگر اس نئے قرضے میں اس کے دو مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں، ایک یہ کہ دُکان چلے گی تو اس کی قسطوں کی بھی بروقت ادائیگی ہو گی اور ساتھ یہ بھی کہ اب اس پر قرض میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا اور یوں اس کی قسطوں کی ادائیگی کا حجم بڑھ جائے گا۔ ساھوکاروں کی ایسی ہمدردیوں کے قصے تاریخ کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی مقروض بیمار پڑ جاتا تو وہ اس کا علاج کرواتے، کسی کا کوئی جھگڑا ہو جاتا تو اسے فوراً نمٹانے کی کوشش کرتے۔ اس سب کے پیچھے یہ مقصد پوشیدہ ہوتا کہ اگر یہ صحت مند رہے گا تو دُکان چلائے گا، نوکری یا مزدوری کرے گا اور میرے قرضوں کی قسط بھی ادا کرتا رہے گا۔ ساھوکار کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مقروض کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے کیونکہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں تو اسے قرقی میں ایک ناکام کاروبار ہاتھ آئے گا یا پھر جائیداد وغیرہ مگر یہ تو اس کے کسی کام نہیں آ سکتے۔ اسے تو اپنے سودی کاروبار کا تسلسل چاہئے ہوتا ہے جو ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ ساھوکاری کا یہ دھندہ ایک عام آدمی کی انفرادی سطح سے لے کر بینکوں کی ملکی سطح پر یا پھر مالیاتی اداروں کی عالمی سطح پر ایک جیسا ہے۔ سب کا طریقۂ واردات روپ بدل کر علیحدہ لگتا ہے مگر روح میں ایک ہے۔ دنیا میں قرض دینے والے بینک اور مالیاتی ادارے لاتعداد ہیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ملک کبھی دیوالیہ یعنی ڈیفالٹ نہ ہو جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان کی قسطوں کی ادائیگی فوراً رُک جائے گی اور عمومی طور پر اس ملک کو چند سال کی مہلت بھی دینا پڑے گی تاکہ وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا سکے اور پھر ایک عرصے بعد ہمارے قرضوں کی ادائیگیاں دوبارہ شروع کر دے۔ اس تصور کو عالمی سودی نظام کے ’’ری شیڈولنگ‘‘ (Re-scheduling) یعنی قسطوں کی ادائیگی کو نئی ترتیب دینا، یا پھر اسے ری سٹرکچرنگ (Re-structing) یعنی قرضوں کی ساخت اور شرائط کو دوبارہ سے ترتیب دینا کہتے ہیں۔ یہ دونوں کام دراصل اس لئے کئے جاتے ہیں تاکہ کسی مقروض ملک کے سر سے ایک خاص مدت کے لئے قرضوں کا بوجھ ہٹا لیا جائے اور وہ بے فکر ہو کر اپنی معیشت کو مضبوط کر سکے، پھر جیسے ہی وہ ذرا سانس لینے کے قابل ہو جائے تو اس سے سود سمیت قرض کی دوبارہ ادائیگی شروع کروائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف جس ملک میں بھی آ کر بیٹھ جاتا ہے وہ اسے کبھی ڈیفالٹ یا دیوالیہ نہیں ہونے دیتا۔ وہ مختلف وقفوں میں اس ملک کے خزانے میں ایک خاص تعداد کی رقم جمع کرواتا رہتا ہے۔ اس طرح دنیا بھر کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ اب اس ملک کو مزید قرض دو تاکہ وہ اسے اپنی معیشت پر لگائے اور ہماری اقساط کی مسلسل ادائیگی بھی ساتھ ساتھ کرتا رہے۔ سودی مالیاتی نظام اس قدر ظالم ہے کہ وہ آپ کو کچھ عرصہ کے لئے بھی ایسی اقساط کو مؤخر نہیں کرنے دیتا بلکہ آپ کو مزید قرض دے کر قسط وصول کرتا ہے اور اپنے شکنجے میں جکڑ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقروض ممالک کو تو کفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے مگر سرمایہ دارانہ معاشرہ کو اپنے تعیش میں کمی کرنے کے لئے اور غریب ممالک کو کسی بھی قسم کی مدد دینے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ ایسی تمام امداد جو دی جاتی ہے وہ بھی ان قحط زدہ علاقوں میں تقسیم ہوتی ہے جہاں انسانیت بھوک سے مر رہی ہوتی ہے۔ ورنہ جہاں لوگ تھوڑا بہت بھی کام کاج کے قابل ہوں وہاں امداد نہیں قرض ہی دیا جاتا ہے کہ یہ لو اور پھر محنت کر کے اسے اُتارو۔ دنیا میں بھوک مٹانے کے لئے سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالر امداد دی جاتی ہے جبکہ اس سے 159 گنا زیادہ رقم یعنی 557 ارب ڈالر صرف اشتہارات پر خرچ کئے جاتے ہیں، صرف یہ بتانے کے لئے لوگوں کو کیا خریدنا چاہئے اور کیا نہیں خریدنا چاہئے۔ اس ظالمانہ سودی نظام معیشت کا نگران عالمی مالیاتی فنڈ ہے جس کی پشت پر امریکہ کی دفاعی قوت ہے، جس کا سالانہ دفاعی بجٹ 738 ارب ڈالر ہے، جبکہ غیر ملکی بینکوں نے غریب ممالک کو جو قرضے دے رکھے ہیں وہ صرف 150 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سودی مالیاتی نظام ان غریب ممالک سے سرمائے کی چوری کی بھی سرپرستی کرتا ہے۔ اس وقت امیر ممالک کے بینکوں میں غریب ممالک کے چور حکمرانوں کے 2400 ارب ڈالر موجود ہیں جو انہوں نے اپنے ملکوں سے چوری کر کے یہاں جمع کروا رکھے ہیں۔ اگر ان چوروں کے اکائونٹ ہی ضبط کر لئے جائیں تو تمام ملکوں کا بینکاری قرضہ دو دفعہ ادا ہو سکتا ہے۔ اس ظالم سودی نظام کے سرپرست آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جارجیوا (Kristalina Georgieva) نے ایک عالمی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی طرف سے پاکستان کو بڑے ’’مخلصانہ‘‘ مشورے دیئے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے امیر طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے چاہئیں اور غریب طبقات کو زیادہ سے زیادہ رعایات دینی چاہئیں۔ ساتھ ہی اس نے اپنا وہ ’’ساھوکارانہ‘‘ مؤقف دہرایا ہے کہ ’’پاکستان کو قرضوں کی ری سٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کے لئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ یعنی ہم تمہیں کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دیں گے، تم اپنا گھر خود ٹھیک کرو۔ آئی ایم ایف کو علم ہو چکا ہے کہ پاکستانی معیشت میں اب غریب کو مزید نچوڑا نہیں جا سکتا اور عین ممکن ہے کہ ایک دن غریب اُٹھ کھڑے ہوں تو کہیں ہمارا بھی سرمایہ وقتی طور پر ڈوب نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ نے مشورہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے امیروں پر ٹیکس نافذ کرے۔ ہم اپنے امیروں پر ٹیکس کیسے نافذ کر سکتے ہیں؟۔ وہ تو جو کچھ کماتے ہیں چوری کرتے ہیں اور پھر یہ چوری والی رقم انہی مغربی بینکوں میں رکھتے ہیں جو ہمیں قرض دیتے ہیں۔ کیا آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر عالمی سطح پر یہ مؤقف اختیار کر سکتی ہے کہ جن غریب ممالک پر قرض بہت زیادہ ہو چکا ہے اور وہ اس کی ادائیگی نہیں کر سکتے، ان ممالک کے ایسے حکمرانوں نے جو دولت امیر ممالک کے بینکوں میں جمع کروا رکھی اسے قرض کی ادائیگی کے طور پر ضبط کر لیا جائے۔ ایسا کون کرے گا؟ کوئی نہیں! کیونکہ ہماری لوٹی ہوئی دولت سے ہی تو واپس ہمیں قرض دیا جاتا ہے اور پھر ہمیں سے سود سمیت وصول کیا جاتا ہے۔