معزز قارئین! سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ سابق خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر پُورے ملک میں سوگ منایا گیا۔ میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے بھی اخلاق اور وضعداری کا ثبوت دیتے ہُوئے، اللہ تعالیٰ سے مرحومہ کی مغفرت کے لئے دُعائیں کِیں ۔میاں نواز شریف کے حلیف اور حریف سیاستدان ( خواتین و حضرات) بھی کثیر تعداد میں مرحومہ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہُوئے ۔11 ستمبر سے آج 17ستمبر تک کسی نہ کسی حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بیگم کلثوم نواز اور اُن کے افرادِ خاندان ہی پر تبصرہ جاری ہے!۔ کسی خاندان کا کوئی فرد جاں بحق ہو جائے توصدمہ تو ہوتا ہی ہے۔ 1915ء علاّمہ اقبالؒ کی والدۂ محترمہ کا انتقال ہُوا تو آپؒ نے ’’والدۂ محترمہ کی یاد میں ‘‘ کے عنوان سے جو نظم لِکھی وہ مرثیہ بھی تھا / ہے اور فلسفۂ غم بھی۔ نظم کا ایک شعر ہے کہ … خُو گر ِپرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں! موت اِس گُلشن میں جُز سنجید نِ پَر کچھ نہیں! یعنی۔ ’’ موت زندگی کی لذّت کو تازہ کرنے کا پیغام ہے جو دراصل نیند کے پردے میں بیداری کا پیغام ہے اور بہ ظاہر مرنے سے اِنسان کی رُوح بیدار ہو جاتی ہے پھر اُسے اُڑان سے کیا ڈر ہے؟۔ معزز قارئین!۔ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر اگر اُن کی دونوں بیٹیاں مریم نواز ( صفدر) اسماء نواز (علی ڈار) اور دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز سو گ کیوں نہیں منائیں گے لیکن زندگی کا ساتھی بچھڑ جانے کے بعد سب سے زیادہ صدمہ تو میاں نواز شریف کو ہوا ہوگا؟۔ متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں بھی ہندی زبان کے لفظ سُہاگؔ کے معنی سبھی جانتے ہیں کہ ’’ خُوش قسمتی ‘‘ لیکن دراصل ’’شوہر کی حیات کا زمانہ‘‘ ۔ یعنی۔ جب تک شوہر زندہ رہے تو اُس کی بیوی ’’ سُہاگن‘‘ کہلاتی ہے۔ تبھی تو بزرگ خواتین اکثر اپنے سے کم عُمر خواتین کو اِسی طرح کی دُعا دیتی ہیں کہ ’’ تیرا سُہاگ بنا رہے؟‘‘۔ بزرگ خواتین کسی بھی خاتون کے مرنے لیکن اُس کے خاوند کی زندگی تک اُسے سُہاگن ہی کہتی ہیں ۔ مَیں اپنے خاندان کے رسم و رَواج اور اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں بیان کرتا ہُوں کہ ’’ 3 دسمبر 1991ء کو لاہور میں میری 70 سالہ والدہ ٔ محترمہ بشیراں بی بی کا انتقال ہُوا تو 9 دسمبر کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا کہ ’’ میرے 82 سالہ والد، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلِسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی موجودگی میں میانی صاحب قبرستان میں جب، میری والدۂ مرحومہ کو سپرد خاک کِیا گیا توتدفین کے وقت جب میرے دو بھائیوں شوکت علی چوہان اور محمد علی چوہان نے میری والدہ صاحبہ کے جسدِ خاکی کو لحد میں اُتارا تو اُن کے دونوں ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں پہنائی گئی تھیں اور کفن کے اوپر سُرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھایا گیا تھا! ‘‘۔ 29 جولائی 2000ء کو میری بڑی بیگم اختر بانو چوہان اور 11 اکتوبر 2008ء کو چھوٹی بیگم نجمہ اثر چوہان کو سپرد خاک کِیا گیا ، تو انہیں بھی باری باری سُرخ چوڑیاں پہنا کر اور کفن کے اوپر سُرخ دوپٹہ اوڑھا کر سپرد خاک کِیا گیا ۔ میرے خاندان کے رواج کے مطابق جب تک میاں نواز شریف کے حیات رہیں گے تو بیگم کلثوم نواز سُہاگن ؔ رہیں گی اور اِسی طرح آصف زرداری صاحب کی زندگی تک مرحومہ بے نظیر بھٹو کو بھی سُہاگنؔ ہی سمجھا جائے گا؟۔ بیگم نصرت بھٹو ، مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی تھیں ۔ جنابِ بھٹو کی "Cousin" اُن کی پہلی بیوی امیر بیگم غیر سیاسی تھیں ۔ اِسی لئے پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جب جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو پہلے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالا تو، بیگم نصرت بھٹو ہی "First Lady of Pakistan" ( خاتونِ اوّل پاکستان ) کہلائیں ۔ جنابِ بھٹو 5 جولائی 1977ء تک صدر/ وزیراعظم رہے تو بیگم نصرت بھٹو ہی خاتونِ اوّل پاکستان کہلائیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ ’’ جنابِ بھٹو ، صدر سکندر مرزا / صدر جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کی پیداوار تھے اورمیاں نواز شریف ، صدر جنرل ضیاء اُلحق کے مارشل لاء کی پیداوار۔ دونوں لیڈروں میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ’’ جنابِ بھٹو کی دو بیٹیاں ( محترمہ بے نظیر بھٹواور صنم بھٹو) تھیں اور دو بیٹے (میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو) جن میں سے صنم بھٹو صاحبہ حیات ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں قتل کردِیا گیا تھا۔ اُس سے قبل جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے دونوں بیٹوں شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کو 18 جولائی 1985ء اور 20 ستمبر 1996ء میں قتل کردِیا گیا تھا۔20ستمبر 1996ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں ‘‘۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا مقدمہ آصف علی زرداری صاحب پر تھا لیکن وہ بری ہو گئے تھے ۔ معزز قارئین!۔ اگرچہ بیگم کلثوم نواز کو بھی 28 جولائی 2007 کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کئے جانے والے اپنے شوہر میاں نواز شریف اور بعد ازاں اُنہیں (اسلام آباد کی نیب عدالت سے ) 10 سال قید بامشقت اور بیٹی مریم نواز کو سات سال قید مشقت اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید با مشقت کی وجہ سے بہت پریشانی ہُوئی۔ علاوہ ازیں اُن کے دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز کو بھی عدالت نے مفرور قرار دے رکھا ہے لیکن مرحومہ "Cancer" کی مریضہ تھیں اور اُن کی کئی بار "Chemotherapy"اور "Radiotherapy" ہوتی رہی ہے جبکہ بیگم نصرت بھٹو 1996ء سے (تا مرگ ) 23 اکتوبر 2011ء تک دُبئی میں "Alzheimer" کی مریضہ رہیں ۔ اُن دِنوں جناب آصف زرداری صدرِ پاکستان اور اُنہوں نے اپنی ’’خُوش دامن ‘‘ ( بیگم نصرت بھٹو ) کو "Mother of Democracy" (مادرِ جمہوریت) کا خطاب دِیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے 4 اپریل 1979ء کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد تا مرگ بیوہ ؔ (Widow) کی حیثیت سے زندگی بسر کی ۔ جب جناب ذوالفقار علی بھٹو ، قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہو کر جیل جا رہے تھے تو اُنہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن مقرر کردِیا تھا۔ پھر بیگم نصرت بھٹو نے، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شریک چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا لیکن اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدۂ محترمہ کو چیئرپرسن شِپ سے برطرف کر کے خُود یہ عہدہ سنبھال لِیا تھا؟ ۔ اِس کے برعکس شریف خاندان میں بہت اتفاق ہے ۔ حسین نواز اور حسن نواز سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ہی اُن کی بہن اسماء نواز۔ میاں نواز شریف کی طرح ، بیگم کلثوم نواز کی بھی یہی خواہش تھی کہ مریم نواز ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اُن کے خاندان کا نام پیدا کرکے وزیراعظم منتخب ہو جائے لیکن… وہی ہوتا ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے ! بیگم کلثوم نواز 12 اکتوبر 1999ء سے 10 اکتوبر 2002ء تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدر رہیں لیکن مریم نواز صاحبہ نے کبھی بھی اُنہیں برطرف کر کے خُود مسلم لیگ کی صدارت سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔ سپریم کورٹ سے نااہل کئے جانے کے بعد میاں نواز شریف کی خواہش تھی کہ ’’ وہ بیگم کلثوم نواز کو لاہور کے حلقہ نمبر این ۔ اے ۔120 سے رُکن قومی اسمبلی منتخب کروا کے اپنی جگہ وزیراعظم منتخب کروا دیں لیکن مرحومہ کی صحت آڑے آگئی۔ بہرحال بے شک بیگم کلثوم نواز وزیراعظم پاکستان منتخب نہیں ہو سکیں لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اُنہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سُہاگن ؔ سیاستدان کے نام سے یاد کِیا جائے گا۔ میری دُعا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ ۔ میاں نواز شریف اور جنابِ آصف زرداری کو عمرِ خضر ؑ عطا فرمائیں! ‘‘۔