حضرت امیر خسرو ؒ کو طوطی ہند کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیا ئؒ کے بہت ہی محبت کر نے والے اور مرید خاص ہونے کا شرف بھی امیر خسرو ؒ کے حصہ میں آیا ۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے خلیفہ تھے اور اُن کی زیارت کے لیے دلی سے پاکپتن آیا کرتے تھے لیکن جو محبت اور عقیدت حضرت امیر خسرو ؒ کو حضرت نظام الدین اولیائؒ سے تھی، وہ اپنی مثال آپ تھے دراصل اولیا اللہ اپنے مرشد میں ہر رنگ دیکھتے ہیں لیکن اُن کی اصل محبت اور عقیدت کا مرکز اللہ اور اُس کے محبوب جناب حضرت محمد ﷺ ہی ہوتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا نہ ہو۔ عاشق رسول ؐ کا مقام بھی عجب ہوتا ہے جو منزلیں ایک صوفی اپنی سالہا سال کی ریاضت کے بعد طے کرتا ہے عاشق ایک جست لگا کر وہ منزلیںحاصل کر لیتا ہے۔ حضرت غازی علم دین شہیدؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ نہ تو عالم تھے اور نہ ہی بڑے زہد تقوی والے صوفی اور امام تھے وہ صرف عاشق تھے اور عاشق بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے تھے کہ جس رات لاہور کے موچی دروازے میں حضرت امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی تقریر سنی تو اُس کا ایسا اثر لیا کہ وہ صبح ہوتے ہی شاتم رسول راجپال کے دفتر پہنچ گئے اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک عاشق رسول ؐ نے آناً فاناً راج پال پر چھریوں کے وار کر کے اُسے جہنم واصل کر دیا اور نعرہ لگا کر کہا کہ میں نے اپنے اور پوری اُمت کے آقا جناب حضرت محمد ﷺ کی حرمت کا بدلہ لے لیا ۔مجاہد ختم نبوت آغا عبدالکریم شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ غازی علم الدین سے قبل غازی خدا بخش جو لاہور کی سڑکوں پرتانگہ چلایا کرتا تھا ،اُس عاشق رسول کوچوان نے لکشمی چوک کے ساتھ راجپال کو پیدل آتے ہوئے دیکھ کر اپنے تانگے سے اتر کر راجپال پر ایک شدید حملہ کیا تھا لیکن وہ بد بخت بچ گیا تھا۔غازی خدا بخش کو کچھ عرصہ قید میں رکھا گیا لیکن جو حملہ حضرت غازی علم دین نے کیا وہ ایسا سخت تھا کہ راجپال موقع پر ہی جہنم واصل ہو گیا اور پھر اِسی سچے عاشق نے وہ مقام حاصل کر لیا کہ جو شاید ہی کسی کے نصیب میں لکھا جائے۔ حضرت غازی علم الدین شہید کا نام آج بھی زندہ ہے اور وہ عاشقوں کے امام ہیں۔ حضرت علامہ اقبال ؒ بھی اپنے زمانہ میں ایک بہت بڑے عاشق رسول ؐ تھے لوگ تو کہتے ہیں کہ حضرت علامہ اقبال ایک شاعر اور فلسفی تھے، وہ بے شک ظاہری طور پر ایک شاعر اور فلسفی تھے لیکن اصل میں میں جس کی وجہ سے اقبال کا نام آج بھی زندہ ہے وہ دراصل ان کی روح میں موجزن عشق رسول ﷺکاجذبہ تھا ۔حضور اقدسﷺ کی ذات مبارک سے اقبال ؒکو بھی بے حدو بے حساب اور والہانہ عشق تھا اورعشق رسول ؐ کی وجہ سے ہی اقبال کی شاعری زندہ ہے اور وہ آج بھی اُمت مسلم کے دلوں میں بستے ہیں ۔ یہ عشق اقبال نے حضرت بلال ؒ سے لیا جن کے بارے میں وہ فرماتے ہیں : چمک اُٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا حبش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز لایا ہوئی اسی سے تیرے غم کدے کی آبادی تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزاہی نہیں قدرت اللہ شہاب کتنے بڑے بیورو کریٹ تھے۔ اقتدار کے ایوانوں کو قدرت اللہ شہاب نے بڑے قریب سے دیکھا تھا غلام محمد سے لے کر سکندر مرزا اور ایوب خان کے بہت ہی قریبی شمار ہوتے تھے لیکن یہ وادی عشق کا مسافر تھا اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں رہنے کے باوجود انہوں نے اپنی سادگی کو کسی صورت نہ چھوڑا۔اُن کی زندگی کا سب سے اعلیٰ وظیفہ درود شریف کا تھا۔ قدرت اللہ شہاب کو مڈل کا امتحان دیتے ہوئے اُن کی والدہ محترمہ نے اُن کو درود شریف کے وظیفے کا تحفہ دیا ۔ قدرت اللہ شہاب اپنے گائوں چکمور صاحب سے دوسرے گائوں مڈل کا امتحان دینے کے لیے اپنے ملازم کریم بخش کے ساتھ جب اعلیٰ صبح جایا کرتے تھے۔اُن کی ماں جی نے اُنہیں کہا کہ بیٹا جب تم گھر سے روانہ ہوتے ہو تو کمرہ امتحان تک کثرت کے ساتھ حضور اقدس ﷺ کی ذات اقدس پر درود شریف پڑھتے رہا کرو ۔بس اِس عظیم وظیفہ کی وجہ سے قدرت اللہ شہاب بھی عاشق رسول ؐ بن گئے اور اپنی کم مائیگی پر ہمیشہ خوش ہوا کرتے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں جب وہ راولپنڈی میں اپنی بڑی بہن کے گھر مقیم تھے تو وفات سے ایک روز قبل اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ خود بیان کیا کہ اب روانگی کا وقت بہت قریب آچکا ہے۔ کل صبح جب میں واک کر کے ریلوے کوارٹر کے ساتھ ذرا تھکاوٹ کی وجہ سے رک گیا تو ایک بچہ میرے پاس آیا اور پوچھا بابا کیا چاہیے۔ آٹا یا نقدی میں نے ایسے ہی سر ہلایا تو وہ بھاگ کر اپنے گھر گیا اور ایک چوانی لے کر مجھے دیتے ہوئے کہا کہ بابا میری ماں کہتی ہیں کہ آٹا تو نہیں ہے تم فقیر بابا کو یہ چوانی خیرات دے کر آو ۔پھر بچے نے کہا کہ جائو بابا اب جائو۔ قدرت اللہ شہاب نے کہا کہ میرے مالک کی طرف سے میرا آخری رزق یہ چوانی مجھے مل گئی ہے اور اب میری روانگی ہونے والی ہے ۔پھر دوسرے دن یہ مرد قلندر بار گاہ رب العزت میں حاضر ہو گیا ۔ اصل بات یہ ہے کہ عاشق لوگوں کے اپنے مالک سے علیٰحدہ راز نیاز ہوتے ہیں جہاں پر ہم جیسے دنیا دار لوگ نہیں پہنچ سکتے ۔