وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد میں 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیرمنانے گئے، جس کا مقصد کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور اس عزم کا ا عادہ کرنا تھا کہ وہ ہر مشکل میں کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔خاص طور پر گزشتہ اگست سے مودی نے مقبوضہ کشمیر میں اسیّ لاکھ کشمیریوں کو قید کر رکھا ہے اسکے خلاف پاکستان کے اندر سے بیک آواز ہو کر صدائے احتجاج بلند کی جائے۔عمران خان نے مودی کے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے خلاف اس ظالمانہ عمل پر پہلے دن سے ہی ایک مضبوط مئوقف اپنایا اور خود کو کشمیر کاز کا سفیر بن کر دنیا بھر میں اس مسئلے کو اٹھانے کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ اس معاملے میں اپنے بیگانے سب متفق ہیں کہ عمران خان نے انتہائی مئوثر انداز میں دنیا کی قیادت کے سامنے اورہر بین الاقوامی فورم پر مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو اور مودی حکومت کی چیرہ دستیوں کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔ آزاد کشمیر کی منتخب اسمبلی کے اجلاس میں بھی آج انہوں نے اسی موضوع پر تقریر کی لیکن اسکا ابتدائیہ آزاد کشمیر کے صدر کی ایک تجویز کے باعث مقامی سیاست کی نذر ہو گیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اپنی تقریر میں عمران خان کو تجویز دی کہ وہ تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی اتفاق رائے کے لئے کام کریں۔انہوں نے وزیر اعظم کو دل بڑا کرنے کا مشورہ دیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم انکی تجویز سن کر مسکراتے رہے اور انکی معنی خیز مسکراہت سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اس بات کا جواب دیئے بنا نہیں رہیں گے۔اسکی یقینی وجہ یہ تھی کہ سیاسی مخالفین کی کرپشن پر بات کرنے کا موقع ملے اور وزیر اعظم اسکو نظر انداز کر دیں، یہ ممکن نہیں۔ خطرہ یہ تھا کہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع پر بات کرتے ہوئے اصل مقصد نہ بھول جائیں ۔ شکر ہے انہوں نے ابتدائیہ تو وزیر اعظم آزاد کشمیر کی بات کا جواب دینے پر صرف کیا لیکن کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ کی طرح مدلّل بات کی ۔اپنے تقریر کا آغاز انہوں نے قومی مفاہمت کی تجویز کا پوسٹ مارٹم کرنے سے کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں جمہوریت پسند ہوں اور جمہوریت ہی دنیا میں ایک کامیاب نظام حکومت ثابت ہوا ہے۔انہوں نے کرپشن پر کوئی بھی مفاہمت کرنے کی ہمیشہ کی طرح شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وسائل سے مالا مال دنیا کے ملک کرپشن کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ بہت سے ممالک جنکے پاس کوئی خاص وسائل نہیں ہیں لیکن کرپشن نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے بہت ترقی کی ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اپنی تقریر کا اختتام فیض احمد فیض کی اس مشہور نظم پر کیا؛ نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ، جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعظم کے شعری ذوق پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں آپکو اشعار سے کتنی دلچسپی ہے! پھر خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے آپ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے انکی قومی مفاہمت کی تجویز پر نہ صرف نثر میں بھرپور جواب دیا بلکہ ایک بہت مشکل اور خوبصورت شعر سنا کر اپنے شعری ذوق کا بھی اظہار کیا۔ شعر کچھ یوں ہے؛ مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے عمران خان کا نثری جواب یہ تھا کہ مجھے کبھی ملک کو لوٹنے والوں سے مفاہمت کا نہ کہیں۔’’ میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں لیکن جنہوں نے میرے گھر کو لوٹا ہے ان سے کیسے صلح ہو سکتی ہیـ‘‘۔ عمران خان یقیناً وزیر اعظم آزاد کشمیر کی طرف سے اس موقع پر ایسی تجویز کی توقع نہیں کر رہے ہونگے لیکن انکے جواب سے یہ لگتا ہے کہ اس معاملے پر انہیں کہیں نہ کہیں دبائو کا سامنا ہے جس کو وہ جبر ناروا کہہ رہے ہیں۔میرے اس گمان کی وجہ انکا ایک شعر بغیر کسی غلطی کے پڑھنا ہے جو کہ تلفظ کے حوالے سے مشکل بھی ہے۔ عمران خان کتابیں پڑھنے کے تو شوقین ہیں لیکن انکا شعری ذوق کبھی بھی ایسا نہیں رہا کہ وہ ایک مشکل شعر صحیح یاد بھی رکھیں اور ادا بھی درست کریں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس شعر کو کافی دنوں سے یاد کر رہے ہیں اور اسکی وجہ یہ تو بالکل نہیں ہو سکتی کہ انہیں پتہ تھا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر انہیں قومی مفاہمت کا کہیں گے اور وہ اسکا جواب اس شعر سے دیں گے۔وہ کئی اور لوگوں کو بھی یہ شعر ضرور سنا چکے ہونگے۔ جس قسم کا پیغام اس شعر میں ہے وہ لڑنے مرنے کا ہے۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ انہیں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے لئے بلیک میلنگ نہیں تو دبائو کا ضرور سامناہے۔ اس معاملے پر وہ کوئی مفاہمت کرتے نظر نہیں آتے اسی لئے تو منافقت اور جبر ناروا کی بات کی ہے، ساتھ ہی سر بکف بھی ہیں گویا وہ کسی بھی نتیجے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔آج انہوں نے اپنے تمام حلیفوں اور حریفوں کو واضح پیغام دیدیا ہے انکو جھکانا ممکن نہیں اور اصولوں پر سودے بازی کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔وزیر اعظم کی ا ستقامت اپنی جگہ لیکن اس ’’جرأتمندی‘‘ کے اظہار کی انہیں کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے۔اور اسکے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔سردست مرکز اور صوبوں میںجہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں ، تبدیلی کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔ عمران خان نے جو فیصلہ خیبر پختونخواہ کابینہ کے تین وزیروں کی برطرفی کی صورت میں کیا ہے وہ بھی انکے اعتماد کا مظہر ہے ۔ اسی طرح وہ ق لیگ سے مذاکرات میںپہلو تہی کر رہے ہیں وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ق لیگ کی ن لیگ سے افہام و تفہیم کی افواہوں کے باوجود انہیں انکی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا۔البتہ آجکل مافیاز کا ذکر وہ اٹھتے بیٹھتے کر رہے ہیں۔ اگر وہ مافیاز کی وجہ سے سر بکف ہیں تو امید ہی کی جا سکتی ہے کہ اس بارے میں وہ خود ہی لب کشائی کریں تو بہتر ہے۔