اس کتاب کے مصنف دو یہودی دانشور ہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار اسرائیل شحاک اور نارٹن میزونسکی ہیں۔یہ نہایت اہم کتاب معروف دانشور لکھاری فرخ سہیل گوئندی کے اشاعتی ادارے جمہوری پبلکیشنز سے شائع ہوئی ہے جو اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی اور اسرائیل میں نقل مکانی کرنے والے مذہبی یہودیوں کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرتی ہے کہ وہ کس طرح وہاں کی سیاست میں اپنا اثر قائم کیے ہوئے ہیں۔اس کے پیش لفظ میں فرخ سہیل گوئندی نے لکھا ہے کہ مغربی پالیسی سازوں دنیا میں اس خیال کو راسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اسلام نام ہی تشدد اور خون خرابے کا ہے جبکہ یہودی انتہا پسندوں نے مختلف ادوار میں بنیاد پرستی کے جو مظاہرے کیے ہیں شاید ہی دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں نے ایسی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہو اگر یہ کہا جائے کہ انتہا پسند یہودیوں نے انسانی تاریخ میں مذہبی بنیاد پرستی کی بنیاد رکھی تو غلط نہ ہوگا۔یہ کتاب ان حقائق کو بے نقاب کرتی ہے جو اسرائیل کی ریاست کے اندر موجود ہیں اور ان حقائق کو بے نقاب کرنے کا سہرا دو انسان دوست یہودی دانشوروں کو جاتا ہے جنہوں نے غیر جانبدارانہ انداز میں اس کتاب میں یہودی بنیاد پرستی کو بے نقاب کیا ہے۔ کتاب کے ایک مصنف نارٹن میزونسکی نے کتاب کے ساتھی لکھاری کے بارے میں۔پیش لفظ میں لکھا ہے کہ میرے دوست اسرائیل شحاک 2001 میں وفات پا گئے تھے وہ ایک باعلم انسان اور انتہائی ذہین سکالر تھے، ایک انسان دوست اور انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے وہ اپنے خیال کے مطابق ریاست اسرائیل اور اسرائیل یہودی معاشریکے منفی پہلوؤں پر تنقید کرنے کو ایک عظیم ذمہ داری تصور کرتے تھے۔کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ہمارا یہودی بنیاد پرستی پر تنقید یہودیوں کے لئے فلسطینیوں کے حوالے سے افہام و تفہیم پیدا کرنے اوراس حوالے سے اپنے رویوں کو بہتر بنانے میں معاون ہوسکتی ہے۔یہ سب اقدامات مشرق وسطی میں امن لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کتاب کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنا پڑتا ہے کم از کم میرے لیے ایک مشکل خواندگی والی کتاب ہے۔اس کی وجہ یہودی تاریخ اور تہذیب سے تعلق رکھنے والے بے شمار حوالے اور یہودی فرقوں اور یہودی بنیاد پرستی کی تاریخ کا بیان بالکل اجنبی نام اور اصطلاحات بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہودی ازم کے بارے میں یہ غیر معمولی حقائق پڑھتے ہوئے آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آپ بالکل اجنبی سی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں اس سے پہلے ایسا متن کبھی نظر سے نہیں گزرا۔اس کا اندازہ قاری کو کتاب پڑھنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ یہودی مذہب کے اندر فرقے در فرقے ہیں۔ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بنیاد پرست یہودی ہیں جو یہودیوں کے علاوہ باقی تمام دنیا کو برا سمجھتے ہیں خاص طور پر عربوں کے خلاف نفرت اور زہر ان کے خون میں شامل ہے۔عربوں کو ہر طرح کانقصان پہنچانا اور ان کی قتل و غارت کرنا اپنے مذہب اور فرقے کی تعلیمات کے مطابق نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اسے اپنے لیے اجر و ثواب کا باعث سمجھتے ہیں۔یہودی ،غیر یہودیوں سے، خود کو برتر تصور کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا یہودیوں کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے۔ یہودیوں میں مگر ایسے فرقے بھی موجود ہیں جو انتہا کی اس شدت پسندی اور قتل و غارت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔یہودی بنیاد پرستی میں ان کے لیے سیکولر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کس طرح یہودی ازم میں یہودی بنیاد پرستی کے حامل ذہن تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔آغاز ہی سے تیرہ چودہ سال کے یہودی لڑکوں کو الگ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے جنہیں آپ یہودی مدرسے کہہ سکتے ہیں۔ان یہودی مدرسوں میں سائنس اور ریاضی انگلش یا آرٹ سے متعلق کسی بھی مضمون کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ انہیں یہودی بنیاد پرستی کے حوالے سے اصول راسخ کرائے جاتے ہیں۔ یہودی بنیاد پرستی کے حوالے سے خاص یہودی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو مقدس تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کہا جاتا ہے۔ان طالب علموں کو تمام عمر دوران تعلیم اور بعد میں خصوصی مراعات کا حقدار تصور کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ انہیں خصوصی مراعات دینے کا رواج جدید اسرائیلی معاشرے میں بھی موجود ہے۔تاریخی طور پر مرد یہودیوں کی تعلیم ہیڈر میں 13، 14 سال کی عمر میں داخلہ سے شروع ہوتی ہے۔ہیڈر عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کمرہ یہ روایتی یہودی ایلیمنٹری سکول کا نام ہوتا تھا۔ اب اسے ، ایسے مدرسے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں یہودی لڑکوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہودی ازم میں تعلیم کے نظام پہ بہت فوکس کیا جاتا ہے۔ ان مدرسوں میں پڑھنے والے یہودی طالب علموں کی ہر سال چھانٹی ہوتی ہے آٹھ سال کی تعلیم کے بعد کم اہل بچوں کو ہنر یا کاروبار سیکھنے کے لیے مختلف مقامات پر بھجوایا جاتا ہے اس ادارے کو یشوا کہتے ہیں۔ہر درجے میں طلبہ کو مزید مختلف خصوصیات یا کمیوں کی بنیاد پر خارج کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔کم اہل طلبہ کو چھوٹے ریستورانوں، ہسپتالوں فوج اور دیگر اداروں میں قوانین کی نگرانی پر فائز کر دیا جاتا ہے۔زیادہ اہل طلبہ کو ایک درجے کے یشوا سے دوسرے اعلی درجے کا یشوا میں ترقی دی جاتی ہے۔یہاں وہ سارا وقت یہودی مذہب کو پڑھتے ہیں اور تالمودی ادب کے مطالعے میں وقت گزارتے ہیں۔سب سے زیادہ اہل طلبا کو بعد ازاں اعلی مذہبی عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ان کے تعلیمی نظام میں کچھ عجیب و غریب قسم کی چیزیں رائج ہیں مثلا یہ کہ طلبہ کو کہا جاتا ہے کمرہ جماعت میں اونچی اواز میں سبق پڑھیں ،خاموشی سے سبق پڑھنے کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ایسے یہودی مدرسوں میں ہمہ وقت شور شرابے کا ماحول رہتا ہے۔ یہودی مذہبی بنیاد پرستی کی ابتدا 1970 کے عشرے میں شروع ہوئی 1988 تک سیکولر بنیادوں پر قائم ہونے والے اسرائیلی معاشرے میں ایسے یہودی بنیاد پرستوں کے جتھے موجود تھے جنہیں لوگ مختلف انداز میں دیکھتے تھے ان کے انداز اطوار اور افکار لوگوں کو عجیب و غریب لگتے تھے ایسے فرقوں کو ہیریڈی کہا جاتا ہے۔یہودی مذہب میں سر پر ٹوپی پہننا بھی بنیاد پرست یہودیوں کی ایک خاص علامت ہے۔ اسرائیل کے مذہبی یہودی اس کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں ۔سیکولر اسرائیلی یہودی عموما اس چیز کو نہیں مانتے۔یہودی مردوں کو سر پر ٹوپی رکھنے کا کوئی حوالہ مذہب میں موجود نہیں مگر عبرانی میں ایسے یہودی کو جو اپنی ٹوپی اتار دے اس کو سیکولر بننا کہتے ہیں اور اس کے لیے یہودیوں میں ایک معروف مقولہ ہے کہ اس نے "اپنی ٹوپی اتار دی ہے"(جاری)