ایک نہیں دو بین الاقوامی بنکوں (ایشیائی ترقیاتی بنک اور عالمی بنک) نے پاکستان کی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حسبِ معمول حل بھی تجویز کردیئے ہیں۔ شاید انہیں یہاں کی حکومتوں کی قرض لینے کی عادت سے غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ فکر بھی کہ اب تک لیا گیا قرض کیسے ادا ہوگا۔ ان ساہوکاروں کی پریشانی بجا ہے کہ ہم اب اصل قرض واپس نہیں کر رہے ہیں لیکن اصل قرض کی قسطوں سود کی ادائیگی بہر حال ہو رہی ہے۔ پچھلے سال کل وفاقی اور صوبائی محصولات نو کھرب اورتریسٹھ ارب روپے تھیں جبکہ خرچ سولہ کھرب پندرہ ارب روپے تھا۔ صوبوں کا حصہ ادا کرنے کے بعد وفاق کے پاس ایک کھرب اور اٹھارہ ارب روپے بچ گئے تھے جبکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہی پانچ کھرب اور تراسی ارب روپے درکار تھے۔ دفاع اور تنخواہوں کی ادائیگی کا الگ بندوبست کرنا تھا۔ لیکن یہ سب ذمہ داریاں پوری ہوئیں۔ کیسے ، سب آپکے سامنے ہے (حقِ حکمرانی اسی صلاحیت سے وابستہ ہے)۔ پچھلے سال بیرونی اور اندرونی قرضوں کی ادائیگیاں اس سے پچھلے سال کی نسبت سنتالیس فیصد زیادہ تھیں۔ آنے والے سال یقینی طور پر اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ معیشت میں بیرونی قرض واپس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن ساہوکاروں نے تو قرض واپس لینا ہے۔ پاکستان اصل رقم کی واپسی نہ سہی قرضوں پر سود ادا کررہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ دیوالیہ پن کی نوبت نہ آئے۔ ابھی تک یہ کوشش کامیاب ہے لیکن کب تک یہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کہتی ہے کہ آئندہ سال ہماری ترقی کی شرح ایک اعشاریہ نو فیصد رہے گی جبکہ مہنگائی پچیس فیصد۔ ان دو اعداد وشمار میں معیشت اور سیاست دونوں کی داستان چھپی ہوئی ہے۔ یعنی ایک طرف تو روزگار کے مواقع کم ہونگے دوسری طرف مہنگائی کو بوجھ بھی سر پر ہوگا۔ سرکار سے امید تو نہ ہی رکھیں۔ ٹیکس کا دائرہ کار محدود ہے۔ عام آدمی ہی ٹیکس دیتا ہے۔ امراء قومی آمدنی کا دس فیصد ہی ٹیکس دیتے ہیں اور آٹھ فیصد مراعات کی صورت میں واپس لے جاتے ہیں۔ حکومت امراء سے ٹیکس لے نہیں سکتی تو بوجھ عوام پر ہی ڈال کر گزارا کررہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے آئی ایم ایف پروگرام سے آنے والی مالیاتی بہتری کو تعریفی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ انتخابی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حدت اس عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ عالمی بنک نے پاکستان کے معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ترقی کے بحران پر بھی توجہ دی ہے اور بتایا ہے کہ چالیس فیصد کے لگ بھگ آبادی ( ساڑھے نو کروڑ) غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ پچھلے صرف ایک سال میں بھوک اور بیماری کے شکار لوگوں کی تعداد میں ایک کروڑ بارہ لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ مالیاتی صورتحال کو بہتربنانے کے لیے بنک نے محصولات بڑھانے، ٹیکسوں میں چھوٹ ختم کرنے اور کفایت شعاری کی تجویز دی ہے۔ عالمی بنک کا خیال ہے کہ اس کی دی گئی تجاویز پر عمل کرکے پاکستان اپنی محصولات میں دگنا اضافہ کرسکتا ہے۔ بنک نے اس سلسلے میں زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس بڑھانے، غیر ضروری اخراجات سے پرہیز اور ٹیکس مراعات کو ختم کرنے کا کہا ہے۔ یوں لے دے کر تان محصولات پر آن اٹکی ہے۔ کس سے لینا اور کس کو دینا ہے تاہم ایک سیاسی معاملہ ہے۔ یوں معیشت اور سیاست میں تعلق تو بنتا ہے لیکن اگر یہ گٹھ جوڑ کی شکل اختیار کرجائے تو حالات وہی ہوتے ہیں جو پاکستان کے ہیں۔ بحران کیوں ہے، اسکی وجہ بھی سامنے ہے۔ جمہوریت اصل میں اس امر کی ضمانت ہے کہ طاقتور کمزور کو نہیں کھائے گا۔ بنیادی حقوق ، تقریر وتحریر اور تنظیم سازی کی آزادی ، انتخابات کا عمل اور حکمرانوں کے لیے جوابدہی کے اصول کی پابندی ، سب سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کے سامنے دیوار کا کام دیتے ہیں۔ یہ بیرونی قرضے جو ملک کو ملے وہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے تھے تاکہ جمہوریت کو تقویت ملے لیکن ہمارے ہاں مقتدر حلقوں نے اسے اپنی وفاداریوں کا صلہ ہی سمجھ لیا تھا۔ جس غیر ذمہ داری سے یہ قرضے خرچ کیے گئے اس سوچ کی ایک عکاسی ہے، جس طرح عوام کی کھال ادھیڑ کر انہیں اد اکیا جا رہا ہے۔ ایک تو عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار سے ان پر بھوک اور بیماری کا بوجھ لاد دیا گیا ہے دوسرے غیر ضروری محکمے ختم نہیں کیے جا رہے کیونکہ ان سے سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بنک جڑا ہے۔ اس ابتلائی دور میں جب عوام بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں، اعلیٰ حکام کی آسمان کو چھوتی تنخواہوں میں کٹوتی اور انہیں میسر مراعات کا واپس نہ ہونا ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی ہی توکرتا ہے۔ یہی ذہنیت مقامی حکومتوں کی آئینی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ صوبائی اور وفاقی انتخابات کے لیے واویلا بھی ہوتا ہے اور ضرورت پڑے تو تحریکیں بھی چل جاتی ہیں لیکن جہاں اختیارات و وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے کا معاملہ ہے تو اس پر کوئی توجہ نہیں۔ جاتے جاتے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹینا لیگارڈکی بات بھی سن لیں جو کہتی ہیں کہ جب ہم اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے محصولات بڑھائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امیروں پر ٹیکس لگائے اور کمزور طبقوں کو تحفظ دے۔ اب آپ یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ ہمارا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ شرافیہ کی ذہنیت ہے جو اپنی ناک سے پرے نہیں دیکھ پاتی اور دعویٰ ہے پچیس کروڑ لوگوں پر حق حکمرانی کا۔ اب اس ذہنیت کو آپ کیا نام دیتے ہیں ، یہ ہم آ پ پر چھوڑتے ہیں۔ ہم تو بس اتنا واضح کرنا چاہتے تھے کہ معیشت کے اتار چڑھاو سمجھنے کے لیے معیشت دانوں کی توجیحات پر نہ جائیں، یہ دیکھیں کہ سیاست کی باگ ڈور کس کے پاس ہے!