مدینہ منورہ میں سرکاری سطح پر، زیارت کے ساتھ ’’سیاحت ‘‘کے رنگ کو نمایا ں کئے جانے کی کوشش تیز تر ہے، مسجد نبوی کے عقب سے قبا شریف کی طرف اس قدیم راستے کو ’’ٹورسٹ سپاٹ ‘‘بنادیا گیا ہے اور اس میں ’’گولف کارٹ‘‘یعنی چھوٹی گاڑیاں جس میں، بعض میں چھ، آٹھ یا بارہ سواریوں تک کی گنجائش ہے، اس قدیم راستے سے ہوتی ہوئی، قبا شریف پہنچتی ہیں، یہ تقریباًپندرہ منٹ کا راستہ ہے، جس کا یکطرفہ کرایہ دس ریال ہے۔ربع صد ی قبل پہلی مرتبہ مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوئی، تو والد ِ گرامیؒ نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر و مسلسل ادا کرنے کی نصیحت فرمائی، اس سفرِسعادت میں عزیزم سیّد محمد علی حیدر ہمراہ ہوئے تو انہیں، ان کے دادا جان کے نصائح کے ساتھ، یہ تلقین ہی پہنچادی، حوالہ اس کا یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں، اس کے لیے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔سبحان اللہ۔۔۔کیا بارگاہ ہے، ہر روز بوقت فجر ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر انور کو ڈھانپ لیتے اور درود شریف پڑھتے ہیں، شام کے وقت یہ چلے جاتے ہیں، اتنے ہی اور آجاتے اور درود شریف پڑھتے ہیں، گویا ایک لاکھ چالیس ہزار فرشتے روزانہ حاضری کی سعادت سے بہِرہ مند ہوتے ہیں، نبی اکرمﷺنے فرمایا کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑنے مکہ المکرمہ کو حرم بنایا یعنی اس میں خونریزی حرام ہے، اسی طر ح میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس میں نہ خون بہایا جائے اور نہ لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں۔نبی ﷺنے فرمایا جس نے میر ی قبرکی زیارت کی اس پر میری شفاعت لازم ہوگئی۔ سیرت طیبہ کی اولین کتاب کے مصنف محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ۱۳نبوی/۱۲ربیع الاوّل، پیر کے روز مکہ سے ہجرت فرماکر (مدینہ منورہ) قبا شریف میں قیام فرماہوئے، وادی قبا اس وقت مدینہ شریف سے تین میل کے فاصلے پہ تھی، جہاں محمد بن عوف کا خاندان آباد تھا، جس کا سربراہ کلثوم بن ہدم تھا، یہی پر نبی اکرمﷺ قیام فرماہوئے،اسی کے قطعہ اراضی پر وہ مسجد تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق اہل قبانے حضورسید ِعالمﷺسے یہاں مسجد تعمیر کرنے کی گذار ش کی، آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اونٹنی پر سوار ہوجائے، جس جگہ اونٹنی بیٹھ جائے، وہاں مسجد تعمیر کر دی جائے، حضرت صدیق اکبرؓ اونٹنی پر سوار ہوئے مگر اونٹنی اپنی جگہ سے نہ ہلی، سیّدنا عمر فاروق ؓنے سواری کی، اونٹنی پھر بھی نہ اْٹھی، سیّدنا علی المرتضیٰ ؓنے رکاب میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ اونٹنی اٹھ بیٹھی۔ حضورﷺنے فرمایا اس کی مہار ڈھیلی چھوڑ دو، جہاں رک جائے، مسجد بنادو، میر ی اونٹنی مامورہ ہے۔ نبی اکرمﷺنے اس مسجد کی تعمیر میں از خود پتھر اْٹھائے،یہاں تک کہ مٹی کے اثرات آپ کے جسم اطہر پر نمایا ں ہوئے، صحابہؓ عرض کرتے ہمارے ماں باپ آپ پر قربان۔۔۔یہ پتھر ہم اْٹھا ئیں گے آپ چھوڑ دیں۔ قباشر یف میں چند یوم قیام کے بعد حضورسیّدِ عالمﷺجمعہ کے دن مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، جب آپﷺ وادی بنی سالم میں پہنچے، تو نماز جمعہ کا وقت ہوگیا اوریوں مدینہ منور ہ میں پہلے جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام ہوا، یہاں پر آپﷺنے ایک عظیم اور فصیح وبلیغ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ محلہ بنو سالم کی یہ مقدس مسجد، جس میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی ہوئی، مسجد عاتکہ کے نام سے مشہور ہوئی، جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضور سیّدِعالم ﷺکی سواری روانہ ہوئی، شہرِ مدینہ کے باسی اپنے پرائے، بیگانے یگانے، چھوٹے بڑے، مردوذن سیدالانبیاء کی زیارت اور جمالِ جہاں آرا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، یہودو نصارٰی توراۃ وانجیل کی عبارات کے ساتھ تائید و تصدیق میں مصروفِ عمل ہوئے، جہاں محبوبِ خدا کی آمد و جلوہ گری کے تذکرے موجود تھے۔ سفر کی کیفیت یہ تھی کہ نبی اکرم سواری پر سوار تھے، آپﷺکے آگے، پیچھے، دائیں بائیں انصار کے مسلح نوجوان تھے، جن میں سے کچھ پیدل چل رہے تھے اور کچھ سوار، نہایت وجدانی کیفیت میں کشاں کشاں تھے۔ بر یدہ اسلمی جھنڈا لیے آگے آگے تھے،اور منظر کچھ یوں تھا:۔ ہوا چاروں طرف چرچا اور عالم میں پکار آئی بہار آئی بہار آئی بہاروں پر بہار آئی فضا میں بس گئیں توحید کی آزاد تکبیریں یہ تکبیریں تھیں باطل کے گلو پر تیز شمشیریں! جنوبی سمت اْٹھا ایک نورانی غبار آخر سوار شہر میں داخل ہوا ناقہ سوار آخر ہر شخص کی خواہش ہے کہ حضور سیّد عالمﷺاس کے گھر میں قیام فرمائیں، محلہ بنی سالم کے عتبان بن مالکؓ اور نوفل بن عبداللہؓ آگے بڑھ کر عرض گزار ہوئے کہ حضورﷺہمارے ہاں قیام فرمائیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے باغات ہیں، مکانات ہیں، خدام ہیں،قوت ہے۔ سازوسامان اور اسلحہ بھی وافرمقدار میں ہے۔جو شخص ہمارے ہاں آجاتا ہے اور ہم اسے اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں توپھر اْسے کوئی خدشہ نہیں رہتا، حضور سید عالم مسکر ا کر فرماتے:’’اس(میری سواری) سے ہٹ جاؤ، اس کو حکم دیا جاچکا ہے‘‘۔ محلہ بنی ساعدہ سے جب اس کو کبِ ہمایوں کا گذر ہوا تو سعد بن عبادہؓ، منذربن عمرؓاور ابو دجانہؓ راستہ روکتے ہوئے عرض کناں ہوئے، حضور ہمارے محلے کو شرف بخشیے اور ہمارے گھروں کو رونق عطا کیجئے، حضور ﷺنظر التفات فرماتے، محبت آمیز نگاہ ڈالتے اور دعا دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے، محلہ بنی عد ی میں ابوسلیط صرمہ بن انیسؓ، محلہ بنی حارث میں سعد بن ربیع عبداللہ بن رواحہؓ اور بشر بن سعدؓیہی درخواست لیے کھڑے تھے کہ حضور آپ کسی اور کے ہاں نہ جایئے، پوری قوم میں ہم سے زیا دہ قر ابتدار نہیں، آپﷺنے انہیں بھی دعا سے سرفراز کیا اور سفر جاری رکھا، محلہ بنو مالک والوں کی طرف سے بھی یہیِ معاملہ پیش ہوا، محلہ بنی بیاضہ کے زیادبن لبیدہ اور فروہ بن عمر نے بھی یہی درخواست کی مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ وجد اور کیف میں تھا:۔ درودیوار استادہ ہوئے تعظیم کی خاطر زمین کیا آسمان بھی جھک گئے تسلیم کی خاطر یہاں تک کہ یہ قافلہ نبی اکرم ﷺکے ننھیال کے محلہ دار بنی عدی بن نجار میں پہنچا، حضور ﷺکے جدا مجد حضرت عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ سلمیٰ بنت عمرو اسی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کی شادی حضرت ہاشم کے ساتھ ہوئی، اور یہیں پر حضرت عبدالمطلب کی ولادت ہوئی، اسی نسبت سے بنو ہاشم کی اس گھرانے کے ساتھ آمدورفت کا سلسلہ چلا اور یہیں پرنبی اکرمﷺکے والد ِ گرامی حضرت عبداللہ ؓکا انتقال ہوا،جب وہ ایک تجارتی قافلے کو لے کر مکہ سے شام کی طرف جارہے تھے، بنی مالک بن نجار کے محلے میں، نبی اکرمﷺکی اونٹنی اس مقام پر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی ہے، اس وقت یہ ایک کھلا میدان تھا، جہاں لوگ دھوپ میں اپنی کھجوریں خشک کیا کرتے تھے، یہاں بنو نجار کی بچیوں نے دف بجا کر حضورﷺکے لیے شعر گائے اور خوش آمد ید کہا، اور قریب ترین حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کو آپ ﷺکی میزبانی کا شرف میسر آیا۔