ٹیلی ویژن کو ہم نے ارتقا کے مختلف مرحلوں میں جس راستے پر چلتے دیکھا بظاہر لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ارتقا کیلیے بھی اسی رستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑے کردار سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کی طرف متوجہ دکھائی دیتے ہیں۔اس مہینے کے آغاز میں ایمیزون نے اپنے پہلے دو تجرباتی سیٹلائٹس خلا میں چھوڑے۔ اس سے ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک اور ایمیزون کے سی او جیف بیزوس میں وہ مقابلہ ایک درجے اور بڑھ گیا جو خلا میں تفریحی مشن بھیجنے کے معاملے میں جاری ہے۔ایمیزون سے پہلے اس کے اہم مدمقابل،ایلون مسک کے سٹار لنک نیٹ ورک کے تقریباً پانچ ہزار سیٹلائیٹ مدار میں موجود ہیں جبکہ برطانوی حکومت کی کمپنی ون ویب کے پاس تقریباً ساڑھے چھے سو سیٹلائیٹ ہیں۔ یوں ایمیزون کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے کہ اس میدان میں دوسرے کھلاڑی اچھی طرح قدم جما چکے ہیں۔ ایمیزون کے پیچھے رہ جانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اصل منصوبے کے مطابق یہ سیٹلائیٹ ایمیزون نے پچھلے سال بھیجنے تھے مگر اس وقت سیٹلائٹ لانچ کرنے والا راکٹ اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی ناکام ہو گیا۔ پھر ان سیٹلائیٹ کے لانچ کو ایک اور مشن میں منتقل کیا گیا اور وہ بھی تاخیر کا شکار ہوا۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک طویل عرصے سے اہم ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جو بنیادی طور پر دیہی علاقوں یاان دوسری جگہوں کے لوگوں کیلیے بہت موثر ثابت ہوسکتی ہے جہاں زمینی انٹرنیٹ سروس دستیاب نہیں ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی اور دنیا بھر میں تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے سیٹلائٹ انٹرنیٹکو شہری علاقوں کیلیے بھی ایک متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اس لیے ٹیکنالوجی کمپنیوں کی دلچسپی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ روایتی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے سیٹلائٹ عام طور پر جیو سٹیشنری مدارمیں واقع ہیں، جو زمین سے تقریباًبائیس ہزار میل کی بلندی پر ہے۔ اس فاصلے کے نتیجے میں ان جیو سیٹلائیٹس سے معلومات حاصل کرنے یا بھیجنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معلومات کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے میں وقت درکار ہوتا ہے اور فاصلہ جتنا زیادہ ہو یہ وقت بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سیٹلائیٹ بہت مہنگے ہوتے ہیں اور اس لیے انسیٹلائٹسیانٹرنیٹ بھی مہنگا پڑتا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انٹرنیت فراہم کرنے والے نئی طرز کے سیٹلائٹ تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ سیٹلائیٹ زمین کے نچلے مدارمیں واقع ہیں اور لیو سیٹلائیٹ کہلاتے ہیں۔لیوسیٹلائٹ زمین کے بہت قریب ہیں، اور ان کا زمین سے فاصلہ محض ایک سو سے گیارہ سو میل کے درمیان ہوتا ہے۔ فاصلہ کم ہونے کے نتیجے میںجیوسیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کی جانے والی انٹرنیٹ کی نسبت لیو سیٹلائٹ انٹڑنیٹ کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور اس کی قیمت بھی نسبتا کم ہے۔اس کے علاوہ ان سیٹلائٹ تک معلومات پہنچانے اور ان سے معلومات حاصل کرنے کیلیے بھی نئے طریقے متعارف کروائے جا رہے ہیں جس سے انٹرنیٹ کی رفتار میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ نئے سیٹلائٹ ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے لیزر کا استعمال کر رہے ہیں جو روایتی طریقوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر تیز ہے۔ زمینی انٹرنیت کے مقابلے میں سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ مثال کے طور پر سیٹلائٹ انٹرنیٹ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی وقت تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ خاص طور پر دیہی یا کم سہولت والے علاقوں کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ زمینی انٹرنیٹ کی نسبت قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکتا ہے کیونکہ سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کا بنیادی ڈھانچہ زمین پر واقع نہیں ہے، جہاں یہ سیلاب، طوفان اور دیگر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا خطرہ ہے۔سیٹلائٹ انٹرنیٹ گھروں اور کاروباروں کو تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرنے کے علاوہ دور دراز دیہی علاقوں میں موبائل نیٹ ورکس کی بھی مدد کر سکتا ہے۔ اس کا استعمال ہوائی جہازوں کے لیے اندرونِ پرواز رابطہ فراہم کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافروں کو پرواز کے دوران انٹرنیٹ تک رسائی، ویڈیوز چلانے اور فون کال کرنے کیسہولت فراہم کر سکتا ہے۔سیٹلائٹ انٹرنیٹ کو بحری جہازوں کے لیے سمندری رابطہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ عملے کو انٹرنیٹ سے منسلک رہنے اور سمندر میں رہتے ہوئے ساحل کے ساتھ بات چیت کرنے کی سہولت دیتا ہے۔کسی آفت کی صورت میں ہنگامی مواصلات فراہم کرنے کے لیے بھی اس قسم کی انٹرنیٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ان آفات سے متاثر نہیں ہوگا۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے فوائد کے باوجود، اسے بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا ہے جن کو حل کیے بغیر اس سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سب سے اہم مسئلہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا مہنگا ہونا ہے، خاص طور پر تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔سیٹلائٹ انٹرنیٹ آفات سے محفوظ ہونے کے باوجود موسمی حالات سے متاثر ہو سکتا ہے، جیسا کہ تیز بارش اور بادلوں کی وجہ سے اس کی رفتار میں کمی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی طاقتوں کو یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ بظاہر اس پر پہلی اجارہ داری ایلون مسک اور جیف بیزوس کی ہوگی جو دنیا بھر میں جھگڑالو ارب پتیوں کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اس پورے نظام پر اگر ان دونوں کا قبضہ ہوتا ہے تو اس سے بہت سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پچھلے مہینے ایلون مسک نے اعتراف کیا کہ اس نے روسی بحری بیڑے پر ڈرون حملے کو روکنے کے لیے یوکرینی فورسز کو اپنے سٹار لنک نیٹ ورک دینے سے انکار کیا۔ امریکہ کی بھرپور حمایت کے باوجود ایلون مسک یوکرین کے کئی آپریشنز میں انٹرنیٹ فراہمی سے انکار کر چکا جو امریکہ کیلیے ضرور تشویش کا باعث ہے۔