1822ء میں جب برطانیہ کے ایک ریاضی دان نے پہلا کمپیوٹر ایجاد کیا تو اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی یہ ایجاد دنیا کے نظام کو تبدیل کرکے رکھ دے اور انسانی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کر دیگی۔یہ کمپیوٹر کی ابتدائی شکل تھی، اس کے بعد بعد کئی دہائیاں اس پہ کام ہوتا رہا پھر انیس سو اسی کا زمانہ تھا جب عام لوگ لفظ کمپیوٹر سے متعارف ہوئے۔کہیں کہیں دفتروں میں کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوا۔ پاکستان میں نوے کی دہائی میں دفاتر میں کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوا۔ یہ استعمال بھی بہت محدود پیمانے پر تھا۔ نیو میلینئم نے تو پورا منظرنامہ ہی بدل کے رکھ دیا۔کمپیوٹر پھر جدید موبائل فون کی صورت عام آدمی کی دسترس میں آنے لگے۔موبائل فون کمپیوٹر ہی کی ایک شکل ہے۔ موجود اسمارٹ فون ایک مکمل پورٹیبل کمپیوٹر ہے، جسے آپ ہر وقت اپنے ہاتھ میں اٹھائے پھرتے ہیں۔اس وقت پاکستان کے ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے۔ پاکستان میں اس وقت 152 ملین افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں، جس میں سے 40 ملین افراد کے پاس اسمارٹ فون جو ایک پورٹیبل کمپیوٹر ہے۔جہاں صرف 58 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں وہاں چالیس ملین افراد کا سمارٹ فون استعمال کرنا حیران کن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سمارٹ فون ان لوگوں کے ہاتھوں میں بھی ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کی روایتی تعریف پر پورا نہیںاترتے لیکن اس کے باوجود وہ سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج پاکستان کا ان پڑھ غریب بھی پورٹیبل کمپیوٹر ہاتھوں میں اٹھائے پھر رہا ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکنالوجی کی رسائی پاکستان کے کم وسیلہ کم پڑھے لکھے افراد تک بھی موجود ہے اور وہ اسے استعمال بھی کر رہا تو اس سنہری موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا، اگر ان کے لیے ٹریننگ کا کوئی ایسا بندوبست کیاجاتا جو ان کی ذہنی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق انہیں ڈیجٹل ہنر یا نان ڈیجٹل ہنر سکھا کر غربت کی دلدل سے باہر نکال سکتا۔ قوموں کو ایسی اجتماعی سمت دینا سیاسی رہنماؤں اور حکومتوں کا کام ہے۔انفرادی طور پر لوگ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کام کررہے ہیں لیکن ایک قومی پالیسی کی صورت اجتماعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ صفیہ کی کہانی سنیں وہ چار بچوں کی ماں ہے چاروں بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور وہ اپنے شوہر کی معاشی جدوجہد میں اس کا ساتھ دینے کے لئے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ اسے سلائی کا بھی شوق تھا مشین اس کے پاس تھی تھوڑی بہت کٹنگ اور سلائی اسے آتی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ کسی سلائی سکول میں داخلہ لے کر سلائی سیکھے اور درزن باجی کی طرح گھر بیٹھے کپڑے سلائی کرکے پیسے کمائے۔ لیکن اس کے پاس وسائل نہیں تھے کہ وہ کسی سلائی سکول میں داخلہ لیتی۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارے گھر میں اسمارٹ فون ہے اس نے کہا کہ میرا شوہر فون استعمال کرتا ہے تو وہ رات کو گھر آتا ہے میں نے کہا تم مجھ سے ایک گھنٹے کے لیے فون لو یو ٹیوب پر کپڑوں کی کٹنگ اور سلائی سے متعلقہ بہترین ٹیلرز کی کئی ویڈیوز موجود ہیں وہاں سے روزانہ ایک گھنٹہ سلائی سیکھنے پر لگاؤ۔ صفیہ کا شوہر آٹھ پاس تھا اسے بات سمجھ میں آگئی یو ٹیوب وہ پہلے ہی ویڈیوز دیکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا اس نے اپنی بیوی کو سلائی سکھانے والی متعلقہ ویڈیوز دکھانے میں مدد کی صرف ایک مہینے کے اندر صفیہ یوٹیوب سے مکمل شلوار قمیص مکمل سلائی کڑھائی سیکھ لی اور اب وہ گھر بیٹھ کر لوگوں کے کپڑے سلائی کرتی ہے اور نئے ڈیزائن سیکھنے کے لیے اب بھی یوٹیوب سے مدد لیتی ہے۔ اب اس کی آمدنی پہلے کی نسبت دوگناہ سے بھی زیادہ ہے اور اسے کمائی کے لئے گھر سے بھی نہیں نکلنا پڑتا۔ بے شمار کہانیاں ایسی ہیں جنہوں نے ہنر یوٹیوب سے سیکھا اور پھر اپنا کاروبار شروع کیا لیکن یہ کمٹمنٹ اور اپنی سمت کو درست کرنے کی بات ہے۔ہمارے ملک میں لوگوں کو غربت سے کیسے نکالا جائے ، اس کے لیے نئے آؤٹ آف باکس طریقے سوچے جاتے تو ہم یقیناً اس وقت بہتر صورت حال میں ہوتے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو کوئی پروگرام یا تجویز سامنے نہیں آئی، جس سے واقعتاً، پچاس ساٹھ فیصد غربت زدہ طبقے کو غربت کی دلدل سے نکالا جا سکتا۔400 ارب روپے کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی میرے نزدیک ایک فلاپ سکیم ہے ہے۔اتنے پیسے لگا کر کر ملک کے ایک بڑے طبقے کو معاشی طور پر خود کفیل کیا جاسکتا تھا۔ہنر سکھا کر چھوٹے کاروبار کے لیے اخوت کی طرز پر قرضہ دیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایسی سکیموں پر پاکستان کا پیسہ اجاڑتے ہیں، جس سے ان کے ووٹ پکے ہوں۔ ایسی اسکیمو ں میں مستحقین کے علاوہ غیر مستحقین کو بھی پیسے کھانے کے مواقع ملتے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 19ارب روپے افسران کی بیویوں کے نام پر جاری ہوئے۔وہ نادار لوگ جو بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں ان کا کوئی کفیل نہیں انہیں ماہانہ معاشی وظیفہ دینا ریاست کا فرض ہے۔ لیکن وہ غریب لوگ جو صحت مند ہیں ان کو ماہانہ وظیفہ دے کر ہم انکو محنت کر کے کھانے کی اہمیت سے دور کر رہے ہیں۔ ایک افریقی ملک میں یہ ریسرچ ہوئی کہ یہاں 57 فیصد غریب طبقے کے پاس سمارٹ فون موجود ہے لیکن اس کے باوجود ملک کا 51 فیصد طبقہ بہت غریب ہے۔ایسے طبقے کے لیے Digitally included poorکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ،کوشش کی جارہی ہے کسی طرح اس ڈیجیٹلی انکلوڈڈ غریبوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے ہنر سکھائے جائیں۔ افسوس کہ ہمارے اہل اختیار اور پالیسی میکرز ایسی innovative سوچ سے کوسوں دور ہیں.ہمارے ملک کے ڈیجیٹل انکلوڈڈ پوئر طبقے کی معاشی فلاح کے لیے کیا اہل اختیار کے پاس کوئی پروگرام موجود ہے ؟