تین گھنٹے گزار کر میں الٹرا بلٹ پروف کار میں ہاسپٹل روانہ ہوئی۔ غیر معمولی آرام دہ کار تھی لیکن مجھے اس وقت تک علم نہیں تھا کہ اس میں الٹراکیا ہے۔ اسے میں الٹرانہیں کہہ سکتی کہ میرے سامنے ایک اسکرین پر عقبی منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس قسم کی اسکرین ایسی کاروں میں بھی ہوتی ہے جو بلٹ پروف نہیں ہوتیں۔ میں نے کار اسٹارٹ کی ہی تھی کہ بانو کی آواز آئی۔’’ صدف!‘‘ میں چونک گئی۔ میں نے دیکھا کہ عقبی منظر دکھانے والی اسکرین پر اب بانو کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ ان کے ہونٹ ہلے اور مجھے ان کی آواز پھر سنائی دی۔’’ ابھی میں تمھیں اس کار کی تمام صفات نہیں بتائوں گی۔ کل کسی وقت گھر آئو گی تو بتائوں گی۔ فی الحال یہ بتا رہی ہوں کہ اس اسکرین پر تمھیں عام طور پر تو عقبی منظر دکھائی دے گا لیکن اس میں ایسے کیمرے بھی پوشیدہ ہیں کہ تم اپنے الٹے ہاتھ یا سیدھے ہاتھ کا منظر دیکھنا چاہو تو وہ بھی دیکھ سکتی ہو۔ اسکرین کے نیچے جو پُش بٹن ہیں ان میں سے ہر ایک پر کچھ لکھا ہوا بھی ہے۔ الٹے ہاتھ کی طرف کا منظر دیکھا چاہو تو وہ بٹن دبانا ہوگا جس پر لیفٹ لکھا ہوا ہے۔ اس طرح ایک بٹن پر رائٹ لکھا ہے اس کے ساتھ ہی ایک بٹن پر زوم لکھا ہے۔ کسی بھی منظر کو بڑا کرکے تم وہ چیز بھی دیکھ سکتی ہو جو تم دیکھنا چاہو۔ وہیں ایک ایسا پُش بٹن بھی ہے جس کا کٹائو ایسا ہے جیسے کسی عورت کے اوپر جسم کا سایہ ہو۔ جب تم اسے دبائو گی تو مجھے علم ہوجائے گا کہ تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ میں فوراً لائن پر آجائوں گی اگر میں اس وقت اپنے گھر یا اپنی کار میں ہوں۔ اگر کسی تیسری جگہ پر ہوں گی تو مجھے علم ہوجائے گا کہ تم مجھ سے رابطہ کرنا چاہتی ہو مگر لائن پر آنے میں مجھے کچھ وقت لگے گا۔ زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے اگر میں کسی کام میں زیادہ مصروف ہوئی۔ اس کا استعمال تم صرف اس صورت میں کرنا جب کسی وجہ سے یہ ضروری ہو ورنہ رابطہ تو موبائل پر بھی ہوسکتا ہے، سن رہی ہو نا توجہ سے! میں تمھارے چہرے پر عجیب سا تاثر دیکھ رہی ہوں۔‘‘ ’’میں حیران ہورہی ہوں بانو کہ یہ سب کچھ کیسے ہے اس کار میں! میں نے کبھی سنا بھی نہیں کوئی کمپنی اس قسم کی کاریں بناتی ہو۔‘‘ ’’یہ سب اضافے میں نے ہی کئے ہیں کار میں۔ اچھا بس! باقی باتیں کل کسی وقت! تم سونیا کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو ورنہ میں کہتی کہ اب گھر میں پڑ کر سو رہو۔‘‘ ’’آپ نہیں سوئیں ابھی۔‘‘ ’’ کچھ تو مصروف تھی اور اس کا انتظار بھی تھا کہ تم سونیا کے پاس جانے کے لیے کار میں بیٹھو تو میں تمھیں کار کی اس خصوصیت سے تو آگاہ کردوں۔ اچھا بس! میں بند کررہی ہوں۔‘‘ بانو کا چہرہ غائب ہوگیا اور اسکرین پر عقبی منظر دکھائی دینے لگا۔ یہ ایک ’’الٹرا‘‘ تو سامنے آگیا، میں نے کار حرکت میں لاتے ہوئے سوچا، لیکن کچھ اور بھی ہوگا، بانو نے کہا تھا کہ وہ مجھے کل ہی اس کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گی۔ اگر اس وقت کوئی میری تاک میں تھا بھی تو سمجھ نہیں سکا ہوگا کہ سیاہ رنگ کی اس کار میں، میں ہوں، میں ہاسپٹل پہنچ گئی اور کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک ڈاکٹر مجھے سونیا کے کمرے میں لے گیا۔ سونیا بے دار تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ آنکھیں بھی جھلملا اٹھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر جذباتی ہوگئی تھی۔ اس کے سر پر پٹی اس طرح بندھی ہوئی تھی کہ اس کی کنپٹی کے زخم کے ساتھ اس طرف کا کان بھی تھوڑا سا چھپ گیا تھا۔ ’’میں تمھیں دیکھنے کے لیے بے چین تھی سونو! ‘‘میں نے پیار سے کہا۔ ’’ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ آپ مجھے دیکھنے آئیں گی اس لیے میں جاگ رہی تھی ورنہ سوجاتی، نیند آرہی ہے۔‘‘ ’’تو سوجائو۔ میں بس ایک نظر تمھیں دیکھنے آئی ہوں۔ میں بھی اب جاکر سوئوں گی۔ رات ختم ہونے میں دو ڈھائی گھنٹے رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر نے بھی مجھے اجازت نہیں دی ہے کہ میں یہاں زیادہ دیر تک رکوں۔‘‘ ’’میں بانو سے ملنا چاہتی ہوں لیڈر! غالباً میں نے ایک نئی زندگی پائی ہے۔ ڈاکٹر مجھے سب بتاچکے ہیں۔ میری اس زندگی میں بانو کا بھی اہم ہاتھ ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ رسمی سی دو ایک اور باتوں کے بعد میں نے سونیا کے گال پر بوسہ دیا اور کمرے سے نکل آئی ۔ اپنے گھر پہنچ کر میں نے کپڑے تبدیل کئے ۔ جب بلٹ پروف جیکٹ اتاری تو غور سے اس سوراخ کو دیکھنے لگی جو جیکٹ کے اوپری حصے میں عین گردن کے قریب تھا ۔ جب میں نے وہ جیکٹ پہنی تھی تب بھی اس باریک سے سوراخ کو دیکھ کر اس کے بارے میں سوچتی رہ گئی تھی ۔ میں نے ایسی بلٹ پروف جیکٹ کبھی نہیں دیکھی ۔ نیند مجھے جلد ہی آگئی اور میں خواب میں وہ واقعات دیکھتی رہی جو طالبان کے مرکز میں پیش آئے تھے ۔ ’’ انھیں بھول جائو!‘‘ میں نے بانو کی آواز سنی ۔ اب فری میسن لاج کا سراغ لگانا ہے ۔ ‘‘ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے بے اختیار اِدھر اُدھر دیکھا لیکن بانو میرے کمرے میں نہیں تھیں ۔ ان کی آواز بھی میں نے خواب ہی میں سنی تھی ۔ میں نے گھڑی میں وقت دیکھا اور بہ سرعت بستر سے اتری کیونکہ دو پہر ہوچکی تھی ‘ ایک بجنے والا تھا ۔ ڈھائی بجے میں ایس آئی ایس کے دفتر میں تھی ۔ میرے ساتھیوں کو طالبان مرکز کی تباہی اور اس میں میرے کردار کا علم ہوچکا تھا ۔ سبھی نے مجھ پر اسی سلسلے کے سوالات کی بوچھاڑ کردی ۔ میں انھیں مختصر جواب دیتی اور آگے بڑھتی ہوئی مسٹر داراب کے کمرے میں داخل ہوگئی ۔ ’’ مبارک ہو کیپٹن صدف!‘‘ مسٹر داراب نے چھوٹتے ہی کہا ۔ ’’ کس بات کی مبارک باد مسٹر داراب !‘‘ میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’ تمھاری ترقی کی ۔‘‘ ’’ میں سمجھی نہیں ۔‘‘ ’’ بگ پرسن نے ایس آئی ایس کے آئین میں ترمیم کی ہے ۔ ایس آئی ایس کے تمام ایجنٹ کیپٹن کہلاتے ہیں‘ لیکن آج سے تم کمانڈر صدف ہو ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے مسٹر داراب نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا ۔ ‘‘یہ تمھاری ترقی کا لیٹر ہے ۔ اس میں تمھارے لیے کیپٹن آف کیپٹنز کے الفاظ بھی لکھے گئے ہیں لیکن اب تمھیں کمانڈر کہا جائے گا ۔ تمام کیپٹن اب تمھارے ما تحت ہیں ‘ تمھارے احکامات کی تعمیل ان کا فرض ہوگا ۔‘‘ ان کی باتیں سنتے ہوئے میں نے لفافے میں سے لیٹر بھی نکال لیا تھا جس سے مجھے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میری تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا تھا جس کی میرے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ مسٹر داراب نے کہا ۔’’ دس منٹ کے اندر اندر سب کیپٹن اس سے آگاہ ہوجائیں گے ۔انھیں تحریری اطلاع نامہ مل جائے گا ۔‘‘ یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ میرے منصب میں اضافہ کیا گیا تھا ۔ ’’ دوسری بات ۔‘‘ مسٹر داراب نے ایک فائل میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ ’’ تم نے کاف مین کی ڈائری کے صفحات کی جو تصاویر بھیجی تھیں ‘ یہ ان کے پرنٹ ہیں جو میں تفصیل سے پڑھ چکا ہوں ۔ بگ پرسن نے بھی پڑھ لیا ہے ۔ آنے والے انتخابات کے سلسلے میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے ہول ناک بھی کہا جاسکتا ہے ۔‘‘ میں مسٹر داراب کا منہ تکتی رہ گئی ۔ کاف مین کی ڈائری سے کیا انکشاف ہوا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں !