میں بانو کے باہر جانے سے پریشان ہو گئی تھی لیکن ملبہ ہٹانے کا کام جاری رکھا تھا ۔ جلد ہی سونیا کے اوپر کچھ نہیں رہا ۔ وہ اوندھی گری ہوئی تھی ۔ میں نے اسے سیدھا کیا اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی ۔ اس وقت میں اسے ہوش میں لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔ اسی وقت ایک اور دھماکا ہوا ۔ یہ بھی ہینڈگرینیڈ کا تھا ۔ کمرے کے ایک پہلو کی دیوار لرزی اور اس میں دراڑیں پڑ گئیں لیکن قریب ہی کہیں ایسی آواز ہوئی جیسے بہت سا ملبہ گرا ہوا ۔ پھر میں نے ایک فائر کی آواز سنی ۔ شاید اس بار لیبارٹری ، میرے دماغ میں آیا ، اور شایدتیسرا ہینڈ گرینیڈ بھی مارا جائے ۔ میں نے سونیا کو اپنے بازوئوں پر اٹھا کر چاہا کہ وہاں سے نکل جائوں لیکن اتنا وزن اٹھا کر چلنے میں مجھے دقت ہوئی ۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کی ایک طرف کی کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا ۔ جب وہ اوندھی پڑی تھی تو مجھے خون دکھائی نہیں دیا تھا ۔ وہ خون میرے کپڑوں کو بھی رنگین کرنے لگا ۔ خدا کرے یہ زخم ، کاری نہ ہو، میرے ذہن میں آیا ۔ پھر جب میں نے تیسرا قدم اٹھایا تو ڈگمگا گئی ۔ سونیا خاصی صحت مند تھی ۔ ایک ہیلی کوپٹر کی آواز سنائی دینے لگی ۔ آواز سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ اس مکان کی چھت پر تھا ۔ وہ اس مکان پر بھی راکٹ مار سکتا ہے ۔ کم از کم اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی ۔ بانو کسی جانب سے بہ سرعت میرے قریب آئیں ۔ ’’تم اسے نہیں سنبھال سکتیں ۔‘‘ بانو نے کہتے ہوئے سونیا کو میرے ہاتھوں سے لے لیا ۔ ’’چلو جلدی۔‘‘ انھوں نے مجھ سے کہا ۔ میں نے قدم بڑھائے ۔ بانو تیزی سے چل رہی تھیں ، جیسے انھوں نے سونیا کو نہیں ، کسی گڑیا کو ہاتھوں میں لیا ہو۔ کبھی کبھی جب انھیں مجھ پر بہت زیادہ پیار آجاتا تھا تو وہ مجھے بھی اسی طرح اٹھا لیتی تھیں ۔ ’’کوئی تیسرا دستی بم بھی آسکتا ہے !‘‘ میں نے خدشہ ظاہر کیا ۔ ’’اب نہیں۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’وہ کچھ فاصلے کے مکان میں تھا ۔ کوئی بہت ہی جنونی تھا جس نے دوسرے طالبوں کی طرح یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ نہ جانے کیوں اس نے دوسرا دستی بم کچھ رک کر مارا تھا ۔ میری نظر اس پر پڑ گئی تھی ۔ اس وقت وہ بم پھینک چکا تھا ۔ میں نے اسی وقت اس کے سرپر گولی ماردی۔ ‘‘ مجھے یاد آیا ، میں نے فائر کی آواز سنی تھی ۔ ہم مکان سے نکلے تو ایک ہیلی کوپٹر وہاں کھڑا نظر آیا ۔ ’’جلدی کیجیے کیپٹن صدف ! ‘‘ ایئر فورس کا وہ شخص بولا جو ہیلی کوپٹر کے باہر ہی کھڑا تھا ۔ وہ ہیلی کوپٹر گن شپ نہیں تھا ۔ پہلے بانو ، سونیا کو سنبھالے ہوئے ہیلی کوپٹر پر چڑھیں ۔ ان کے بعد میں اور پھر وہ آفیسر ! پائلٹ نے انجن اسٹارٹ رکھا تھا ۔ گولیاں چلنے اور راکٹوں کے دھماکے سے اب بھی سارا علاقہ گونج رہا تھا ہیلی کوپٹر ہمیں لے کر فضا میں اٹھا ۔ اسی وقت ایک گن شپ ہیلی کوپٹر قریب آگیا اور اس نے نیچے گولیاں برسانا شروع کردیں ۔ ’’یہ ہماری حفاظت کے لیے ہے۔ ‘‘ آفیسر نے کہا ۔ ’’نیچے سے کوئی ہمارے ہیلی کوپٹر پر فائر نہ کرسکے۔ ‘‘ گن شپ ہیلی کوپٹر اتنی تیزی سے گولیاں برسا رہا تھا کہ کہ نیچے جو بھی کم یا زیادہ طالبان ہوں گے ، وہ اپنی جان بچانے کے لیے منتشر ہو رہے ہوں گے ۔ جب ہیلی کوپٹر کچھ آگے نکل گیا تو گن شپ ہیلی کوپٹر نے اس جگہ ایک راکٹ بھی داغ دیا جہاں سے ہم چلے تھے ۔ بانو نے سونیا کے زخم کا جائزہ لینے کے بعد اپنے لباس سے ایک بڑا کپڑا پھاڑا اور اس کی پٹی بناکر سونیا کی کنپٹی پر کس کے باندھ دی ۔ اس طرح خون کے اخراج میں کمی آجانا یقینی امر تھا ۔ آفیسر نے مجھ سے کہا ۔ ’’ہمیں اس مکان کی ڈرائنگ بھی مل گئی تھی اس لئے ہم آسانی سے آپ لوگوں تک پہنچ گئے۔ ‘‘ ڈرائنگ ؟ میرا دماغ الجھا ۔ اس مکان کی ڈرائنگ ان لوگوں کو کہاں سے مل گئی ۔ ’’آپ نے کپڑا لہرا کر ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ‘‘ اس مرتبہ آفیسر نے بانوسے کہا ۔ ’’لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ ہم اس طرف آہی رہے تھے۔ ‘‘ بانو نے اس کی بات پر دھیان دیے بغیر سونیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’ اسے جلد از جلد طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ’’ ہم چکلالہ ائیر پورٹ پر اتریں گے ۔ وہاں ایمبولینس موجود ہوگی ۔ میرے ساتھی نے اطلاع دے دی ہے ۔ ‘‘ ہم جس وقت باتیں کررہے تھے اور بانو ، سونیا کے پٹی باندھ رہی تھیں ، اس وقت پائلٹ وائرلیس پر کسی سے باتیں کررہا تھا جو مجھے سنائی نہیں دی تھیں ، اس کی طرف میری توجہ ہی نہیں تھی ۔ میری نظریں سونیا پر جمی ہوئی تھیں ۔ میرے موبائل کی اسکرین چمکنے لگی ۔ کال مسٹر داراب کی تھی۔ ’’ جی مسٹر داراب!‘‘ میں نے کال ریسیو کی ۔ ’’ اب ہم خیریت سے ہیں لیکن سونیا زخمی ہے ۔ ‘‘ ’’ اس کے زخمی ہونے کی اطلاع مجھے ابھی ابھی ملی ہے کیپٹن !‘‘ مسٹر داراب نے کہا ۔’’ اس سے پہلے آپریشن کی اطلاعات برابر ملتی رہی تھیں ۔وہ سب بھاگے تھے لیکن بہت کم ایسے ہوں گے جو فرار ہونے میں کامیاب ہوسکے ہوں ۔ بعض نے گاڑیوں پر فرار ہونا چاہا تھا لیکن انھیں گاڑیوں سمیت جہنم رسید کردیا گیا ۔ ‘‘ ’’ کیا فضل اللہ مارا گیا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ۔ ’’ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ وہاں اب طیارے یا ہیلی کوپٹر نہیں ہیں ۔ فوج نیچے اتر چکی ہے اور ان لوگوں کو ڈھونڈ کر ختم کیا جارہا ہے ۔ کچھ نے غاروں میں چھپنا چاہا تھا لیکن وہ بھی بچ نہیں سکے۔ اوہ! .....میرے دوسرے فون کی گھنٹی بج رہی ہے ۔ میں تم سے بہت سی باتیں کرتا لیکن اب بند کررہا ہوں ۔ کال بگ پرسن کی ہوسکتی ہے ۔ ‘‘ رابطہ منقطع ہوگیا ۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ آپریشن آخر کیوں کر کیا جاسکا ۔ انھیں طالبان کے مرکز کی صحیح جگہ کیسے معلوم ہوسکی ؟ یہ میرے لئے ایک معما تھا ۔ صدف کا یہ معما کیسے حل ہوا ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے!