میں بانو کی ہدایت کی وجہ سے نہیں ، دماغ میں آنے والے اس سوال کی وجہ سے ساکت رہ گئی کہ بانو نے کیا دیکھا تھا کہ غائب ہو گئی تھیں اور کہاں غائب ہوگئی تھیں ؟ ’’کیا ہوا لیڈر؟‘‘ سونیا نے تشویش زدہ اور بہت ہی دھیمی سرگوشی کی ۔ ’’معلوم نہیں، بس خاموش رہو۔‘‘ میں نے بھی اتنی ہی مدھم سرگوشی کی ۔ دماغ میں ابھرنے والے سوا ل کے بعد مجھے خیال آیا کہ بانو نے کسی قسم کا خطرہ محسوس کیا تھا اور خود بھی کسی طرح کہیں چھپ گئی تھیں ۔ اعصابی تنائومیں دس بارہ منٹ تک سونیا اور میں دم بہ خود اور ساکت رہیں ۔ پھر اس وقت میں نے سکون کی سانس لی جب بانو کا سایہ نظر آیا اور ان کی آواز سنائی دی ۔ ’’ اب آجائو تم دونوں۔ ‘‘ بانو کی سرگوشی پہلے کی طرح مدھم نہیں تھی ۔ اسی وجہ سے میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ خطرہ ٹل چکا تھا جس کی نوعیت اس وقت تک میرے علم میں نہیں تھی ۔ میں نے پیر بانو کی طرف پھیلا کر قدم جماتے ہوئے کہا ۔ ’’ آئو سونیا!‘‘ ’’میں نے بانو کی آواز سن لی ہے لیڈر ! ‘‘ سونیا نے جواب دیا ۔ اب میں نے کچھ بولے بغیر دایاں پائوں اٹھا کر اپنے بائیں پیر کے قریب رکھا اور پھر بایاں پیر اٹھا کر بانو کی طرف پھیلایا تو وہ بانو کے پائوں سے مس ہوا ۔ میرے پھیلے ہوئے دونوں ہاتھ سامنے کی چٹان پر تھے ۔ میں نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے قریب رکھا وار پھر بایاں ہاتھ پھیلا کر چٹان پر رکھنا چاہا تو وہ چٹان پر جمنے کی بہ جائے آگے چلا گیا ۔ ’’اوہ!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’چٹان اب نہیں ہے ۔‘‘ ’’ ہاں۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اب اطمینان سے آجائو ۔ یہاں جگہ کشادہ ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف پھیلایا جو میرے شانے پر آیا ۔’’ میرا ہاتھ پکڑ لو۔ ‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنا دایاں پائوں اٹھا کر بائیں پائوں کے ساتھ رکھا تو میرے سامنے تھوڑا سا نشیب تھا اور پھر دور تک زمین پھیلی ہوئی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے مکانات اور ٹیلوں کے سائے نظر آرہے تھے ۔ وہاں خاصا آگے تین محدود روشنیاں بھی متحرک تھیں ۔ ’’اوہ ؟ ‘‘ میرے منہ سے پھر نکلا ۔ ’’ہم طالبان کے مرکز میں پہنچ گئے !‘‘ ’’ہاں۔‘‘ بانو نے کہا ۔ اسی وقت سونیا کا بایاں پیر میرے پیر سے ٹکرایا ۔ ’’احتیاط سونیا! ‘‘ میں جلدی سے مدھم آواز میں بولی ۔ ’’یہاں سامنے کی چٹان ختم ہوگئی ہے۔ ‘‘ ’’ میں بانو کی آواز سن چکی ہوں لیڈر! ‘‘ سونیا نے کہا ۔ میں نے بانو سے کہا۔ ’’یہ روشنیاں کیسی ہیں جو حرکت کررہی ہیں۔‘‘ ’’ یہ لوگ اس وقت کہیں آنے جانے کیلئے ٹارچ استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ سونیا نے میری طرف ہاتھ پھیلایا تھا جو میں نے پکڑ لیا ۔ بانو مجھ سے کچھ دور سرکتے ہوئے بولیں ۔ ’’میرے قریب آجائو تاکہ سونیا کو جگہ مل سکے۔‘‘ میں سونیا کا ہاتھ پکڑ ے پکڑے ان کے قریب ہوگئی ۔ سونیا کو یہ بتانا ضروری نہیں تھا کہ اب وہ قدم میری طرف بڑھائے گی تو اس کے سامنے چٹان نہیں رہے گی جس پر وہ ہاتھ جماسکے ۔ اگر میں اسے بتاتی تو اس کا جواب پھر یہی ہوتا کہ اس نے بانو کی آواز سن لی ہے ۔ جس طرح میں بانو کا ہاتھ پکڑ کر ، چٹان کا سہارا لیے بغیر کشادہ جگہ پر آگئی تھی ، اسی طرح سونیا بھی میرے قریب آگئی ۔ خود بانو نے تو کسی سہارے کے بغیر اس پتلی سی کگر پر اپنا توازن برقرار رکھا تھا ۔ اسی لئے تو میں سمجھتی ہوں کہ وہ ایک مافوق الفطرت ہستی ہیں ۔ میرے قریب آتے ہی سونیا نے سامنے کا منظر دیکھ لیا اور بے ساختہ بولی ۔ ’’یہ کیا؟‘‘ ’’یہی طالبان کا مرکز ہے۔ ‘‘ میں نے جواب ۔ بانو بولیں ۔ ’’ اب احتیاط سے نیچے اتر و۔ وہ جو ٹیلا ہے ۔‘‘ انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا ۔ ’’ہمیں فوری طور پر اس کی آڑ میں پہنچنا ہوگا۔‘‘ نشیب بھی اونچا نیچاتھا لیکن زیادہ نہیں تھا ۔ ہم تینوں نیچے اتر کر اس ٹیلے کی آڑ میں پہنچ گئے جو نشیب ختم ہوتے ہی چند گز کے فاصلے پر تھا ۔ اس مختصر وقفے میں میری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوچکی تھیں ، اس لیے ٹارچ کی روشنیوں کے ساتھ مجھے طالبان کے سائے بھی نظر آگئے تھے جو ٹارچ کی روشنی میں ادھر ادھر آجارہے تھے ۔ سونیا بولی ۔ ’’مجھے وہ منظر دیکھ کر ایسا لگاجیسے ہم اچانک کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔ ‘‘ میں نے بانو سے پوچھا ۔ ’’آپ مجھے تنبیہ کر کے غائب کہاں ہوگئی تھیں ؟ ‘‘ ’’آخری چند منٹ میں جو خدشہ مجھے ہوگیا تھا ، وہ رنگ لا کر رہا۔‘‘ ’’کیا خدشہ تھا بانو؟‘‘ میری بہ جائے سونیا پوچھ بیٹھی ۔ ’’دراڑ کا یہ مختصر راستہ طے کرنے میں دیر لگی تھی تو مجھے یہ اندیشہ ہوا تھا کہ جن طالبان کو اب دراڑ کے باہر ڈیوٹی دینی تھی ، وہ نہ آ جائیں۔ اس وقت مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ تم دونوں جلدی کرو ، پھرتی دکھائو لیکن میں نے یہ اس لیے نہیں کہا کہ عجلت میں تم دونوں کھائی میں نہ جاگرو۔‘‘ ’’تو کیا وہ طالبان آگئے تھے ؟‘‘ میرے ذہن میں اٹھنے والا سوال میری زبان پر آگیا ۔ ’’ہاں۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ وہ دونوں نشیب سے اوپر آرہے تھے ۔ وہ مجھے فوراً دکھائی دے گئے کیونکہ ان میں سے ایک ٹارچ جلائے ہوئے تھا۔ ‘‘ ’’ہمارے پیچھے چٹان تھی ۔ اتنی تاریکی کی وجہ سے انہیں میرا سایہ نظر نہیں آیا ہوگا ۔ میں تمہیں تنبیہ کر کے فوراً لیٹ کر قدرے ہٹ کر نشیب میں اتری تھی ۔ میں نے ان پر پیچھے سے حملہ کیا تھا ۔ چاقو کے وار دونوں کی گردن پر بہت تیزی سے کیے تھے اور جب وہ تڑپ کر گرے تو ان کے سینوں پر چاقو عین دل کے مقام پر مارے ۔ وہ فوراً ٹھنڈے ہوگئے۔ ‘‘ ’’مائی گاڈ۔‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ ان کی لاشیں ان کے بعد ڈیوٹی پر آنے والے تو دیکھ ہی لیں گے ۔ وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے مرکز میں ان کا کوئی دشمن آگیا ہے۔ ‘‘ سونیا دھیرے سے ہنسی ۔ ’’ہم تو اس طرح باتیں کر رہے ہیں جیسے کسی خطرناک جگہ کی بہ جائے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں۔ ‘‘ ’’چپ!‘‘ بانو نے جلدی سے سرگوشی کی ۔ ’’کوئی اس طرف آرہا ہے۔ ‘‘ اسی وقت میں نے بھی قدموں کی آہٹ سن لی ! دوبارہ ایک خطرناک موقع ! کل کے اخبار 92 میں پڑھیے !