میں واپس کاف مین کی خواب گاہ میں گئی۔ اسی وقت باہر سے ایک آواز آئی۔بولنے کے لیے میگا فون استعمال کیا گیا تھا۔ ’’مکان چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔ خود کو ہمارے حوالے کردو تو ٹھیک ہے۔ اگر ہمارے آدمی کو کچھ ہوا تو بھی تم لوگ بچ کر نہیں جاسکتے لیکن اس صورت میں کئی گھنٹے تک تمہارے جسم کی بوٹیاں رک رک کر کاٹی جائیں گی۔ سسک سسک کر مروگے۔‘‘ بانو نے کاف مین کو گھورتے ہوئے کہا۔’’ اگر ہم نے تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچایا اور خود کو ان کے حوالے کردیا تو بھی ہمیں سسکا سسکا کر ہی مارا جائے گا۔تم اپنا موبائل اٹھائو اور ملا فضل اللہ سے رابطہ کرو۔ ہم اسی سے بات کریں گے۔‘‘ ’’یہ فضل اللہ ہی کی آواز ہے۔‘‘ کاف مین نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔اس کا اشارہ میگا فون سے آنے والی آواز کی طرف تھا۔ ’’اچھا۔‘‘ بانو نے کہا۔’’ تو بھی اس سے موبائل پر ہی بات کی جاسکتی ہے۔ ہمارے پاس میگا فون نہیں ہے۔ یہاں سے ہم چیخ کر بھی بولیں گے تو ہماری آواز ان تک نہیں پہنچے گی۔‘‘ کاف مین نے ایک طرف رکھا ہوا اپنا موبائل فون اٹھایا اور نمبر ملانے لگا۔ میگا فون کی آواز پھر آئی۔’’ جواب دینے کے لیے تم لوگ کاف مین کا موبائل استعمال کرسکتے ہو۔ اسے میرا نمبر معلوم ہے۔ میں فضل اللہ ہی بول رہا ہوں۔‘‘ اس وقت تک کاف مین نمبر ملا چکا تھا۔ اس نے موبائل بانو کی طرف بڑھا دیا۔ بانو نے وہ اپنے کان سے لگالیا۔ ’’اسپیکر آن کردیں۔ ‘‘میں نے جلدی سے کہا۔ میں ان دونوں ہی کی باتیں سننا چاہتی تھی۔ بانو نے موبائل کا اسپیکر آن کردیا۔ اسی وقت کال ریسیو کی گئی تھی۔ فضل اللہ کی آواز آئی۔ ’’کون بول رہا ہے؟‘‘ ’’جس سے تم بات کرنا چاہتے ہو۔ ‘‘بانو نے کہا۔ ’’کیا جواب ہے تمھارا؟ اور تم لوگ ہو کون؟‘‘ ’’اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا کہ ہم کون ہیں۔‘‘ ’’آئے کیوں تھے یہاں؟ اور کدھر سے آئے تھے؟‘‘ ’’اس کا جواب بھی نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ بانو نے کہا۔’’ اور تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ بس ہم اس علاقے سے نکل جانا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’نکل جائو!‘‘ ’’ہمیں ایک لینڈ کروزر چاہیے جس میں ہم جاسکیں۔‘‘ ’’مل جائے گی۔‘‘ ’’فوراً ہی مان گئے! ‘‘بانو ہنسیں۔ ’’تم چاہتے ہو کہ جب ہم لینڈ کروزر کی طرف بڑھیں، ہمیں گولیوں کا نشانہ بنادیا جائے، لیکن تم ایسا نہیں کرسکو گے۔ کاف مین کو ہم اپنے ساتھ رکھیں گے۔ اگر تم نے ہم پر گولیاں چلائیں تو ہم مرتے مرتے بھی کاف مین کو گولی کا نشانہ بنا دیں گے۔‘‘ دوسری طرف سے جواب نہیں آیا۔ بانو پھر بولیں۔’’ دوسری بات یہ کہ کوئی ہمارا تعاقب نہیں کرے گا۔ تمہارے اس علاقے سے نکل جانے کے بعد ہم کاف مین کو چھوڑ دیں گے۔‘‘ ’’اس کی کیا ضمانت ہے کہ کاف مین کو چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘ ’’ہماری زبان ہی اس کی ضمانت ہے۔‘‘ بانو کی اس بات کابھی جواب نہیں آیا۔ ’’بولو! ‘‘بانو نے کچھ توقف سے کہا۔’’ ورنہ…‘‘ فضل اللہ نے ان کی بات کاٹی۔ ’’مجھے اپنے نائب سے مشورہ کرنا ہوگا۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘بانو نہ جانے کیوں مسکرائیں۔ ’’میں تمھیں اس کے لیے آدھا گھنٹا بھی دے سکتی ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ’’ملافضل ڈراما کررہا ہے۔ ‘‘کاف مین مضطربانہ لہجے میں بولا۔ ’’وہ تمھیں اجازت دے دے گا کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائو۔ اب مجھے یقین ہے کہ تم کرمنلزنہیں،پاکستانی جاسوس ہو۔ میری طرح اسے بھی یقین ہوگیاہوگا۔ وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ تم جاکر اپنے محکمے کو یہاں کے بارے میں بتا دو اور فوج اس علاقے پر بمباری کرکے اسے تباہ کردے یہ سب بھی مارے جائیں گے۔ تم لوگ جیسے ہی مجھے لے کر اس مکان سے نکلو گے، تم پر گولیاں برسادی جائیں گی۔ اسے اس کی پروا نہیں ہوگی کہ تم لوگ بھی مجھے ختم کردو گے۔ وہ ہر قیمت پر اپنے اس مرکز کو بچانا چاہے گا۔‘‘ ’’اچھا!‘‘ بانو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ قائم رہی۔’’ تو پھر کیا کریں؟‘‘ مجھے بانو کے اس اطمینان پر حیرت ہوئی۔ کاف مین اگر صحیح کہہ رہا تھا تو ہم یہاں سے بچ کر نہیں نکل سکتے تھے۔ ’’مجھے ایک فون کرلینے دو۔ میں جسے فون کروں گا، وہ فضل اللہ کو فون کرے گا۔ فضل اللہ کو میری زندگی کی ضمانت دینی ہی ہوگی۔‘‘ ’’کرلو فون!‘‘ بانو نے اس کا موبائل اس کی طرف اچھال دیا۔ ’’آپ کے دماغ میں کیا ہے بانو! ‘‘میں نے ان کے قریب جاکر بہت مدھم لہجے میں کہا۔’’ اس خطرناک موقع پر آپ مطمئن نظر آرہی ہیں۔‘‘ ’’دیکھتی رہو۔ ‘‘بانو نے کہا۔’’ آدھا گھنٹا تو بہت ہے۔ بیس منٹ بعد ہی ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘ سونیا میرے قریب ہی کھڑی تھی۔ میری طرح اس کے چہرے پر بھی الجھن بکھری ہوئی تھی۔ کاف مین نے موبائل پر کسی سے بات کرنا شروع کی تو میری نظریں اس پر جم گئیں۔ وہ نہ جانے کون سی زبان بول رہا تھا۔ ’’یہ نہ جانے کس سے کیا کہہ رہا ہے!‘‘میں بولی۔ ’’میں سمجھ رہی ہوں، وہ ہیبروبول رہا ہے، ماڈرن ہیبرو۔‘‘ ’’کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ ’’ہمارے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے اپنی جان بچانے کا راستہ ڈھونڈا ہے۔ غالباً موساد کے چیف سے بات کررہا ہے۔ ابھی پوری بات نہیں ہوئی لیکن میں نے اندازہ لگالیا ہے۔ موساد کا چیف ملا فضل اللہ کو فون پر دھمکی دے گا کہ کاف مین کو کسی قسم کی گزند پہنچی تو اسرائیل ان لوگوں کی امداد بالکل بند کردے گا۔ فضل اللہ اتنا بڑا جھٹکا برداشت نہیں کرسکتا۔ تم جلدی سے لائبریری میں جائو۔ دیکھو کھڑکی سے! فضل اللہ نظر آرہا ہے؟‘‘ کاف مین کے بارے میں بانو کے جواب نے مجھے مطمئن کردیا۔ میں دوڑتی ہوئی لائبریری میں گئی اور کھڑکی ذرا سی کھول کر نظر دوڑائی۔ طالبان کے خلاف بانو نے کیا منصوبہ بنایا تھا؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ کیجیے! ٭٭