دھماکے کی وجہ سے میرا نشانہ خطا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن گولی فضل اللہ کو نہیں لگی تھی ۔ ایک طالب اس کے برابر میں آگیا تھا اور گولی اسے لگی تھی۔ میں نے اسے گرتے دیکھا ۔ دھماکا اتنی زور کا تھا کہ میرے کان سنسنا گئے تھے ۔ پھر ویسا ہی ایک دھماکا اور ہوا اور میرے کانوں کی سنسناہٹ بڑھ گئی ۔ طالبان میں بھگدڑ مچ گئی تھی ۔ چیخ پکار کی مدھم آوازیں بھی میرے کانوں میں پہنچی تھیں ۔ یہ وہ لوگ ہوسکتے تھے جو ان دھماکوں کی زد میں آئے ہوں گے ۔ میرا دماغ اس وقت یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ دھماکے کی وہ آواز کسی بم کی تھی یا کسی راکٹ کی ، لیکن وہ آواز کسی کی ہو ، میں یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھی کہ اس کا ذمے دار کون تھا ۔ میں نے تیزی سے کاف مین کی خواب گاہ میں لوٹنا چاہا لیکن تیزی ممکن نہیں تھی۔ میری ٹانگیں بھی سنسنا رہی تھیں ۔ بہ ہر حال میں کاف مین کی خواب گاہ میں پہنچی ۔ سونیا اور کاف مین کے چہروں سے گھبراہٹ ظاہر ہورہی تھی ۔ بانو اس وقت بھی پر سکون تھیں ۔ سونیا ان سے ان دھماکوں کے بارے میں سوال کررہی تھی ۔ ’’جلدی ہی سب کچھ جان لو گی ۔‘‘ بانونے اس سے کہا ۔ ’’ اب تم ذرا کاف مین کو اپنی گن کی زد پر لے لو۔ ‘‘ سونیا نے ایسا ہی کہا ۔ ’’کیادیکھا تم نے ؟‘‘ بانو نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے مجھ سے پوچھا ۔ ’’بس دھماکے سنے ہیں اور طالبان میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔‘‘ ’’مجھے لیبارٹری کی طرف لے چلو ! ‘‘ بانو دروازے سے نکل گئیں ۔ ’’میں سمجھ گئی تھی۔ میں اسی طرف بڑھ رہی ہوں ۔‘‘ ’’ فضل اللہ کو ختم کردیا ؟ ‘‘ ’’بچ گیا وہ کم بخت۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’عین وقت پرکوئی اورسامنے آگیا تھا ۔ گولی اسے ہی لگی تھی اور وہ گرپڑا تھا ۔ پھر میگا فون مجھے دکھائی نہیں دیا۔ اس کے بغیر میں اندازہ نہیں لگا سکتی تھی کہ فضل اللہ کون ہے؟‘‘ اب بے تحاشا گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں ۔ ’’بھاگتے ہوئے طالبان کسی پر گولیاں چلا رہے ہیں ‘‘ ۔ ’’ ان پر بھی گولیاں چلائی جارہی ہوں گی۔ ‘‘ ’’ یہ کیا ہوا ہے بانو؟…وہ دھماکے ؟ ‘‘ ہم دونوں کھڑکی کے قریب پہنچ گئے تھے ۔ بانو نے میرے آخری سوال کا جواب نہیں دیا تھا ۔ وہ کھڑکی سے جھانکنے لگی تھیں ۔ میں نے بھی جھانکا لیکن اب جھانکنے کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ طالبان مکان کے قریب نظر نہیں آرہے تھے ۔ میں نے خاصی دور تیز روشنی دیکھی جو مصنوعی چھت میں پیدا ہونے والی خلاسے اندر آرہی تھی ۔ اسی روشنی میں ایک گن شپ ہیلی کوپٹر شکستہ مصنوعی چھت کے نیچے آگیا اور سرچ لائٹ ادھر ادھر ڈالتے ہوئے ان طالبان پر راکٹ برسانے لگا ۔ پھر دوسرا ہیلی کوپٹر بھی نیچے آیا ۔ اس کی سرچ لائٹ اور گن نے بھی کام شروع کردیا ۔ ٹوٹی ہوئی چھت سے بھی روشنی اندر آرہی تھی، وہ دو ہیلی کوپٹروں کی سرچ لائٹ ہوسکتی تھی جو نیچے نہیں آئے تھے ۔ پھر طیاروں کی گھن گرج بھی سنائی دی ۔ اس کے ساتھ ہی کچھ پیرا شوٹرز بھی نظر آئے جو نیچے آتے ہوئے گولیاں چلا رہے تھے ۔ وہ یقینا کسی طیارے بلکہ طیاروں سے کودے ہوں گے کیونکہ بہ تدریج ان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا تھا ۔ ’’بانو…‘‘ میں رک رک کر بولی ۔ ’’ملٹری…آپریشن ! ‘‘ ’’ہوں‘‘۔ اسی وقت ایک ایئر کرافٹ گن نے دھماکا کیا ۔ یہ کارروائی طالبان کی طرف سے ہوئی تھی ۔ ایک ہیلی کوپٹر شعلوں میں لپٹا ہوا نیچے گرنے لگا۔ فوراً ہی دوسرے ہیلی کوپٹر نے اس جگہ راکٹ مارا جہاں ایئر کرافٹ گن تھی ۔ فوراً ہی دوسرا راکٹ بھی مارا ۔ وہاں جو کچھ ہوا ، میں نہیں دیکھ سکی کیونکہ ایک دھماکے سے اس مکان کے درودیوار لرز اٹھے تھے جہاں ہم تھے ۔ ’’مکان پر بھی …‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’نہیں۔‘‘ بانو تیزی سے مڑتی ہوئی بولیں ۔’’یہ دھماکا ہینڈ گرینیڈ کا ہے ، یہ کسی طالب نے مارا ہوگا۔‘‘ میں ان کے ساتھ لپکی ۔ کاف مین کی خواب گاہ اس دستی بم کا نشانہ بنی تھی ۔ اس کی چھت کا کچھ حصہ اور دو دیواریں منہدم ہو گئی تھیں ۔ ایک طرف آگ بھی لگی ہوئی تھی ۔ وہاں میں نے ایک لرزہ خیز منظر دیکھا ۔ کاف مین کا سار جسم ملبے کے نیچے دبا ہوا تھا لیکن سر دکھائی دے رہا تھا جو کسی بھاری اینٹ سے اس طرح کچلا گیا تھا کہ اس کا بھیجا باہر نکل پڑا تھا ۔ ’’مائی گاڈ!‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ بانو سونیا کی طرف لپکیں ۔ سونیا کا کمر تک کا جسم ملبے میں دبا ہواتھا ، وہ ساکت پڑی تھی ، چہرے پر کئی جگہ زخم تھے ۔ میں بھی اسی طرف بڑھی ۔ ’’ یہ زندہ ہے۔‘‘ بانو نے کہا ۔ انھوں نے اس کی ناک پر ہاتھ رکھ کر اس کی سانسیں محسوس کرلی تھیں ۔ ’’ملبہ ہٹانے میں میری مدد کرو ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ وہ ملبے کی ایک بڑی اینٹ ہٹا رہی تھیں ۔ میں ان کا ساتھ دینے لگی ۔ وہ ملبہ ہٹائے بغیر سونیا کو نہیں نکالا جاسکتا تھا ۔ ’’کوئی اور ہینڈ بم بھی مارا جاسکتا ہے بانو ! ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’کچھ بھی ہو۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ہم سونیا کو یہاں مرنے کے لیے تو نہیں چھوڑ سکتے۔ ‘‘ میں اس معاملے میں ان کی ہم خیال تھی ۔ میں بھی سونیا کو اس حال میں نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔ میں نے ہینڈ بم کے بارے میں بس ایک اندیشے کا اظہار کیا تھا ۔ باہر سے گولیاں چلنے اور دھماکوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھی ۔ ’’ یہ آپریشن ہو کیسے گیا بانو؟ ‘‘میں نے ملبہ ہٹاتے ہوئے سوال کیا ۔ بانو میرے اس سوال کا جواب دینے کی بہ جائے بولیں ۔ ’’تھوڑا سا ملبہ رہ گیا ہے ، یہ تم اٹھائو ، میں ابھی آتی ہوں۔ ‘‘ ’’باہر جانے میں خطرہ ہوگا بانو!‘‘ میں جلدی سے بولی ۔ بانو نے میری بات سنی ، ان سنی کردی اور باہر نکل گئیں ۔ کیا بانو نے باہر نکل کر خود کو خطرے میں ڈالا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں ! ٭٭