کاکڑ کے خراٹے سننے کے بعد میں نے کہا۔’’ بہت جلدی سوجاتا ہے وہ !.....خیر..... ابھی آپ کیا کہہ رہی تھیں ؟ کیا آیا تھا آپ کے ذہن میں ؟‘‘ ’’ تم دونوں کو پیاس یا بھوک نہیں لگی ؟‘‘ ’’ وہ تو لگی ہے ۔‘‘ میں نے لمبی سانس لی ۔’’ آپ کی باتیں ختم ہونے کے بعد ہی میں کہتی کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم کیا کرسکیں گے!‘‘ ’’ میرے ذہن میں یہ آیا تھا کہ ہمارے کھانے پینے کا بندوبست توہوجائے گا ۔ قدرت ہمارا ساتھ دے رہی ہے ۔‘‘ ’’ کیسے؟‘‘ ’’ کاکڑ کے ہاتھ میں ایک خاصا بڑا بیگ تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں تین دن کے کھانے پینے کا سامان ہوگا ۔ کاکڑ کو ختم کرکے وہ سب ہمارا ہوگا اور تین دن تک ہم یہاں بے خطر رہ سکیں گے ۔‘‘ ’’ یہ تو بہت ٹھیک ہے بانو!‘‘ سونیا بول پڑی ۔’’ چھ طالبوں کو تو ہم مار ہی چکے ہیں ،یہ ساتواں ہوگا ، وہ سو بھی رہا ہے ۔ آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ’’ اسے چیخنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ یہ مکان دوسرے مکانوں سے خاصے فاصلے پر ہے لیکن اگر کوئی طالب ادھر سے گزررہا ہوگا ، وہ کاکڑ کی چیخ سن سکتا ہے ،ہمارے لیے پریشانی کھڑی ہوسکتی ہے ۔‘‘ ’’ اس کا منہ دبا کر چاقو اس کے سینے میں اتارا جاسکتا ہے ۔‘‘ میں نے سفاکی سے کہا ۔’’ اس کے لیے ہم میں سے دو کو ہی یہ کام کرنا ہوگا ۔‘‘ ’’ میں اس کا منہ دبا لوں گی ۔‘‘ بانو نے مجھ سے کہا ۔’’ تم فوراً اس کے سینے میں عین دل کے مقام پر چاقو اتار دینا ۔‘‘ ’’ آپ دونوں کے پیچھے میں بھی چلتی ہوں ۔ ‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ آئو!‘‘ بانو نے دروازے کی طرف قدم بڑھایا ۔ کاکڑ کے خراٹے بہ دستور سنائی دے رہے تھے ، اس لیے احتیاط سے دروازہ کھول کر اس کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میرے اعصاب تنائو کا شکار نہیں ہوئے تھے ۔ کاکڑ کو اسی طرح ختم کردیا گیا جیسا بانو نے کہا تھا ۔ اس کے بعد وہ بھاری بھرکم بیگ کھولا گیا جو کاکڑ اپنے ساتھ لایا تھا ۔ اس میں پانی کی تین بڑی بوتلیں ، پکے ہوئے کھانے کے سر بند ڈبے ، خشک دودھ کا تھیلا اور ان سب چیزوں کے ساتھ ایک اسٹوو جس پر کھانا گرم کیا جاسکتا تھا ، چائے بھی بنائی جاسکتی تھی ۔ ڈبل روٹی ،چائے کا ایک پیکٹ اورخشک دودھ بھی تھا بیگ میں ! تین پلیٹیں اور چائے کی ایک پیالی بھی تھی ۔ ’’ یہ ایک آدمی کے لیے تین دن کے کھانے پینے کا سامان ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ اور ہم تین ہیں ،بہت کم کھا پی کر گزارا کرنا ہوگا ۔‘‘ ’’یہ تو ظاہر ہے بانو!‘‘ سونیا بولی ۔ ہم نے صرف ایک سر بند ڈبا کھول کر اسٹوو جلایا ۔ اس پر گرم کرکے ڈبل روٹی سے کھایا اور پانی بہت کم پیا ۔ ’’ اسی کمرے میں رہا بھی جاسکتا ہے ۔‘‘ سونیا نے کہا ۔ بانو کوئی جواب دینا ہی چاہتی تھیں کہ میں بول پڑی ۔’’ اس کمرے میں وحشت ہوگی جہاں ایک لاش پڑی ہے ۔ دوسرے ایک دھڑکا بھی لگا رہے گا ۔ ممکن ہے کہ ان دونوں میں کوئی کاکڑ سے کچھ کہنے سننے آئے ! کیوں بانو؟‘‘ ’’ ٹھیک کہہ رہی ہو ۔اندرونی کمرے ہی میں کاٹھ کباڑ کے پیچھے جگہ کچھ صاف کرنی ہوگی ۔‘‘بانو نے جواب دیتے ہوئے اس ٹرنک کی طرف بڑھیں جو کمرے کے ایک گوشے میں رکھا تھا ۔’’کپڑے ہی رکھے ہوں گے اس میں !.....کوئی چادر یا دری بھی مل سکتی ہے !‘‘ بانو کا خیال ٹھیک ہی نکلا ۔ ٹرنک میں کپڑے ہی تھے ۔ اس میں ایک میلا کچیلا سا بیڈ کور بھی مل گیا ۔ وہ چادر سے بہتر تھا ۔ بیڈ کور کی لمبائی چوڑائی بستر کی چادر سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اندرونی کمرے میں کاٹھ کباڑ کے پیچھے صفائی کرکے چادر بچھادی گئی ۔ اس پر ہم تینوں بھی آڑے ہو کر لیٹ سکتے تھے ۔میں یہ بات زبان پر بھی لے آئی ۔ ’’ ہاں۔‘‘ بانو نے میری تائید کی ۔ ’’ لیکن دن میں! ہمیں طالبان کے اس مرکز کی چھان بین رات ہی کو کرنا ہوگی ۔ دن میں یہاں نقل و حرکت نہیں کی جاسکتی ، اور آج کی رات سمیت ہمارے پاس تین دن ہیں۔‘‘ ’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں بانو!‘‘ میں نے کہا ۔’’ ہمیں آج ہی مرکز کا جائزہ لینا ہوگا ۔‘‘ ’’ مجھے حیرت ہے کہ اب تک یہاں کوئی ہلچل نہیں ہوئی ۔ ہماری تلاش تو شروع ہوجانی چاہئے تھی ۔ ‘‘ میں نے بانو کو ان دونوں آدمیوں کے بارے میں بھی بتایا جو دراڑ کے باہر گئے تھے اور واپسی پر خاصی عجلت میں اور پریشان تھے کہ ان کے چھ ساتھی غائب ہیں جنہیں دراڑ کے راستے پر پہرہ دینے کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ میں نے اور سونیا نے ان کی باتیں سنی تھیں ۔ بانو اس وقت ’’ ٹھکانا‘‘ تلاش کرنے گئی ہوئی تھیں ۔ ’’ ان دونوں کی اس رپورٹ کا کوئی رد عمل تو ہونا چاہیے تھا !‘‘میں نے آخر میں کہا۔ میری تمام باتوں کے جواب میں بانو نے کہا ۔’’ میں نے ائیر فون پر دو تین طالبان کی باتیں سنی ہیں ۔ وہ اس بارے میں بات کررہے تھے ۔ جب ملا فضل اللہ کو یہ رپورٹ دی گئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ ان چھ طالبان کو اغوا کرنے والے فوج کے آدمی ہوں گے اور ان پر تشدد کرکے پوچھا گیا ہوگا کہ جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا ، وہاں وہ کیوں تھے اور کیا کررہے تھے ۔ ان چھ طالبان کے بارے میں فضل اللہ کا خیال ہے کہ وہ اپنی جان دے دیں گے لیکن فوج کو مرکز کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے ۔ اگر وہ بتا دیتے تو فوج مرکز پر ریڈ کرچکی ہوتی ۔ اس کے علاوہ مجھے ان لوگوں کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملا فضل اللہ نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے چند طالبان کو مرکز کے باہر بھیجا ہے ۔ وہ دراڑ والے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے مرکز کے باہر گئے ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ فوج نے وہاں کتنی چوکیاں لگائی ہیں اور ایک ہی وقت میں کیا ان سب چوکیوں پر خودکش حملے کئے جاسکتے ہیں !‘‘ بانو نے اتنی وضاحت سے سب کچھ بتا دیا تھا کہ ان سے اس معاملے میں کوئی سوال کرنے کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ میں نے کہا ۔’’ یہ بہت اچھا ہوا کہ یہ سب کچھ معلوم ہوگیا ورنہ مجھے تو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ یہاں ہماری تلاش شروع ہوجائے گی ۔‘‘ بانو بولی ۔’’ بس اب ہم تینوں کو اس مکان سے نکل کر یہاں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہیں ۔ ہم تینوں کو مختلف سمتوں میں جانا ہوگا ۔ ہم ساتھ ساتھ نہیں رہیں گے ۔میں نے شاید پہلے بھی کہا تھا کہ بہ یک وقت تین افراد کی نقل و حرکت سے خدشہ ہے کہ ہمیں دیکھ لیا جائے گا !‘‘ ’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔‘‘ میں نے اپنے خون کی گردش میں اضافہ محسوس کیا ۔ ’’ بس تو اب چلو ۔‘‘ بانو کھڑکی کی طرف بڑھیں ۔ ان کے بعد میں مکان سے نکلی اور میرے بعد سونیا ! ’’ تم اس طرف جائو صدف!‘‘ بانو نے کہا ۔’’ اور تم اس طرف سونیا !.....میں اس طرف جائوں گی۔ ‘‘بانو نے ہاتھ سے اشارے بھی کیے تھے ۔ میں جب رینگتی ہوئی ایک جانب بڑھ رہی تھی تو ذہن میں یہ خیال بھی تھا کہ اگر کوئی خطرہ ہوا تو مجھے تن تنہا اس کا سامنا کرنا ہوگا ۔ یہ معاملہ بانو اور سونیا کے ساتھ بھی تھا ۔ ان تینوں میں سے کس کو کیا خطرہ پیش آیا ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے! ٭٭