میں نے کچھ توقف کیا ‘ پھر کچھ سوچ کر بولی ۔’’ کاف مین کو ہم کس طرح اغواکرسکتے ہیں بانو!‘‘ ’’ فی الحال تم لوگ کھانا تو کھالو !‘‘ سونیا بولی ۔’’ بھوک تو خیر ہے لیکن پیاس سے برا حال ہے ۔‘‘ ’’ ایک گھونٹ پی لو ۔ پھر کھانا کھا کر پینا ۔‘‘ بھوکی پیاسی میں بھی تھی ۔ ہمارے ساتھ بانو نے بھی کھانا کھایا ۔ ہم خورونوش کا سامان احتیاط سے استعمال کررہے تھے ۔ وہ ہمیں کاکڑ سے ملا تھا جو اس کے لیے تین دن کا تھا لیکن ہم تین تھے اس لیے اس سامان کے تین حصے کئے گئے تھے۔ ’’ شام کے بعد ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ رہ جائے گا ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ شام کے بعد ہم یہاں ہوں گے بھی نہیں۔‘‘بانو نے کہا ۔ ’’ کاف مین کو اغوا کرکے ہمیں اس علاقے سے نکل جانا ہے ۔ شام تک اب آرام کیا جائے ۔‘‘ کہیں دور سے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی ۔ ’’ نشانہ بازی کی مشق شروع کی گئی ہوگی ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ گولیاں تسلسل سے نہیں چل رہی ہیں ۔ کسی کا کسی سے مقابلہ ہوتا تو مسلسل چلتیں ۔ ‘‘ ’’ یہی خیال مجھے بھی آیا تھا ۔ ‘‘ ’’ بس اب سوجائو ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ باری باری سونا ہوگا ۔ ہم میں سے کسی ایک کا جاگتے رہنا ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کسی وجہ سے کوئی کاکڑ سے ملنے آئے۔ کاکڑ کو غائب پاکر اس کا رد عمل جانے کیا ہو ۔ ہمیں ہر طرح سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔ پہلے تم دونوں سوجائو ۔ تمہیں جگانے کے بعد میں سوئوں گی ۔‘‘ شاید تھکن تھی اس لیے میں اور سونیا جلد ہی سوگئیں ۔ میں نے نہ جانے کس وقت خواب میں دیکھا کہ ہم نے کاف مین کو تو اغوا کرلیا تھا لیکن اس علاقے سے نکلنے میں کام یاب نہیں ہوسکے تھے ۔ ایک خودکش بم بار نے ہمارے قریب آکر خود کو اڑا لیا تھا۔ دھماکا ہوا تو میری آنکھ کھل گئی اور میں جلدی سے اٹھ بیٹھی ۔ بانو جاگ رہی تھیں ۔ انھوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ تم عجیب انداز سے اٹھی ہو۔کیا کوئی خواب دیکھا ہے ۔‘‘ میں نے انھیں بتایاکہ میں نے کیا خواب دیکھا تھا۔ بانو مسکرائیں۔’’ اس ماحول میں تو ایسے ہی خواب نظر آئیں گے ۔‘‘ میں نے وقت دیکھا ۔ چار بج رہے تھے ۔ ’’ ارے!‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ اتنی دیر کی نیند ؟‘‘ ’’ تھکن میں ایسی ہی نیند آتی ہے ۔ سونیا کو بھی جگادو ۔ اب میں کچھ آرام کرلوں ۔‘‘ ’’ شام ہوتے ہی میں صرف تین گھنٹے رہ گئے ہیں، آپ نے ہمیں پہلے جگادیا ہوتا ۔‘‘ ’’ میں چاہتی تھی کہ تم دونوں اچھی طرح سو لو اور تازہ دم ہوجائو ۔ میرے لیے تین گھنٹے کی نیند بھی کافی ہوگی ۔‘‘ میں نے سونیا کو جگایا ۔ اس کے بعد بانو سوگئیں ۔ پانی کا ایک ایک گھونٹ پی کر ہم نے چائے بنا کر پی ۔ ’’ کاف مین کو یہاں سے اغوا کرنا ‘ کوئی آسان بات نہیں ہوگی ۔‘‘ سونیا بولی۔ ’’ خطرات سے کھیلنا پڑے گا ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔’’ کاف مین کو اغواکر کے لے جانا بہت ضروری ہے ۔ اب میں اس کی ڈائری کے صفحات تو پڑھ لوں ۔ ‘‘میں نے کہا ۔ ’’ تصویریں تو میں نے لے لی تھیں لیکن تحریریں جستہ جستہ دیکھی تھیں ۔ اب وقت ملا ہے تو ذرا وضاحت سے پڑھ لوں۔‘‘ ’’ آواز سے پڑھیے! میں بھی سن لوں ۔‘‘ میں نے پہلے صفحے کی تصویر نکالی اور دھیمی آواز میں پڑھنے لگی ۔ آواز سے پڑھنا میرے لیے اکتاہٹ کا سبب بنتا ہے ۔ کچھ دیر بعد میں نے موبائل بند کردیا اور بولی ۔’’ باقی پھر کسی وقت ۔ اب ذرا باہر کا جائزہ تو لے لیا جائے ۔ دیکھنا چاہیے کہ دن میں یہاں باہر کا ماحول کیسا ہوتا ہے ۔ ‘‘ ’’ ہاں ‘دیکھنا تو چاہیے۔‘‘ سونیا نے کہا ۔ ہم دونوں اٹھ کو کھڑکی کے قریب گئیں ۔ میں نے کھڑکی تھوڑی سی کھولی ۔ زیادہ کھولنے میں خطرہ تھا ۔ ’’ جھانک کر ہی دیکھنا ہوگا ۔‘‘ میں نے کہا ۔ اس وقت وہاں کا ماحول لائٹس سے اتنا روشن تھا کہ وہاں بھی دن کا گمان کیا جاسکتا تھا ۔ کسی طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں اس وقت بھی آرہی تھیں ۔ طالبان اِدھر سے اُدھر آتے جاتے نظر آرہے تھے ۔ کچھ عورتیں بھی اپنے روایتی لباس میں متحرک نظر آئیں ۔ میرے بعد سونیا نے بھی جھانک کر دیکھا ‘ پھر بولی ۔’’ عورتیں بھی نظر آرہی ہیں ۔‘‘ ’’اس تحریک میں عورتیں بھی ہیں لیکن بہت کم ہیں ۔‘‘ ہم دونوں میں تحریک طالبان کی باتیں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ اتنا وقت گزر گیا کہ باہر کی فضامیں رات نے اپنے پر پھیلا دیے ہوں گے۔ دفعتاً میں اور سونیا چونکے ۔ ایسی آواز سنائی دی تھی جیسے کسی نے بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی ہو ۔ ’’ کوئی آرہا ہے۔‘‘ سونیا نے سرگوشی کی ۔ ’’ بانو کو اس کا اندیشہ بھی تھا ۔ ‘‘ میں نے فوراً بانو کو جگایا ۔ویسے بھی اب انھیں جگانے کا وقت ہوچکا تھا ۔ جاگتے ہی بانو نے بیرونی کمرے میں قدموں کی آواز سن لی ۔ ’’ کوئی آیا ہے بانو !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ سن رہی ہوں آواز !‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ بستر خالی دیکھ کر وہ اس کمرے کا رخ ضرورے کرے گا اسے یہی ختم کردینا ضروری ہے ۔‘‘ قدموں کی آواز تیزی سے اس کمرے کی طرف آئی جس میں ہم تینوں تھے ۔ ’’ ہمیں زیادہ سے زیادہ سمٹ جانا چاہیے۔‘‘ میں بولی ۔ ’’ وہ کھڑکی ہی کھول کر دیکھے گا ۔ شاید اس کی نظر ہم پر نہ پڑے۔‘‘ ٹارچ بجھادی گئی تھی ‘ اس لیے گھپ اندھیرا تھا ۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی ‘ پھر قدموں کی آواز جو کھڑکی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ آنے والے کے پاس تیز روشنی کی ٹارچ تھی جو اس نے کھڑکی پر ڈالی ‘ پھر خود بھی کھڑکی تک پہنچ گیا ۔ میں نے اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف بھی دیکھی جو بانو اور سونیا نے بھی دیکھ لی ہوگی ۔ تیز روشنی کی ٹارچ تھی اس لیے اس کا اثر ہم تک پہنچ رہا تھا ۔ اب ہم تینوں گھپ تاریکی میں نہیں رہے تھے ۔ طالب بھی کچھ کچھ نظر آنے لگا تھا ۔ اگر گھپ اندھیرا رہتا تو ہم کو وہ سائے ہی کے مانند نظر آتا ۔ وہ ٹارچ کی روشنی میں کھڑکی کے باہر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ میرے قریب ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی ۔ غالباً سونیا کچھ اور سمٹی تھی ۔سرسراہٹ کی آواز سن کر میرا دل اس خیال سے دھک سے رہی رہ گیا کہ طالب نے بھی وہ آواز نہ سن لی ہو ! پھر جو کچھ ہوا ‘ اس سے میرے خیال کی تصدیق ہوگئی ۔ اس نے یقینا کن انکھیوں سے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا ۔ اس نے تیزی سے کلاشنکوف کا رخ ہماری طرف کیا اور گولیوں کا برسٹ مارا ۔ بانو ‘ صدف اور سونیا ہلاک ہوئیں یا زخمی ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں !