مسٹر داراب کے چہرے پر خاصی تشویش تھی ۔ ’’ کیا انکشاف ہے مسٹر داراب ؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ۔ ’’ ابھی انتخابات میں خاصا عرصہ پڑا ہے لیکن موجودہ حکومت کی ایک اہم شخصیت کو ایک ملک کی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ ایک بڑی طاقت ان انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گی جس سے موجودہ حکومت پریشانی میں پڑسکتی ہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ وہ خفیہ طور پر مسٹر ڈیوڈ ڈورون سے ملاقات کرے ۔ خود ڈیوڈ ڈورون اس سے ملاقات کے لیے نہیں آسکتا کیونکہ اس کی دونوں ٹانگوںں پر فالج کا اثر ہوچکا ہے ۔ ‘‘ اس کی زندگی وھیل چیئر پر گزررہی ہے لیکن وہ فری میسن لاج کا ایک بہت اہم آدمی ہے ۔ کیونکہ موساد چاہتی ہے کہ اس حکومت کو انتخابات میں کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے وہ کسی اقدام کے لیے کوئی صائب مشورہ دے سکتا ہے ۔ ‘‘ میں نے کرسی پر پہلو بدلا ۔’’ وہ سیاسی شخصیت فری میسن لاج کا نام سن کر چونکی تو ہوگی !‘‘ ’’ فری میسن لاج کا قیام ہی موجودہ حکومت کی دو بڑی شخصیات کے تعاون سے عمل میں آیا ہے ۔ ‘‘ ’’ مائی گاڈ۔‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ اس میںزیادہ تعجب کی بات نہیں ہے کمانڈر صدف! موجودہ حکومت کی چند کلیدی شخصیات ہر اس طاقت کی دوست ہیں جو پاکستان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ جس طرح امریکا نے روس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے اس کی معیشت پر کاری ضرب لگائی تھی ‘ وہی کام موجودہ حکومت کررہی ہے ۔ معیشت کو بہ تدریج تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے ۔ ‘‘ ’’ یہ بات تو ہر وہ محب وطن پاکستانی سمجھ رہا ہے جو کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہے ۔‘‘میں نے کہا ۔ ’’ خیر! آپ ڈیوڈ ڈورون کے بارے میں بتارہے تھے ۔ کیا اس سیاسی شخصیت نے ڈیوڈ ڈورون سے ملاقات کی تھی۔‘‘ ’’ یقینا کی تھی اور دو ایک دن سوچ بچار کے بعد ڈیوڈ ڈورون نے وعدہ کرلیا تھا کہ انتخابات کے وقت موجودہ حکومت کو کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہوا تو فری میسن لاج سے جو کچھ ممکن ہوا ‘ وہ کرے گی۔سیاسی شخصیت کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ فری میسن لاج کیا کرسکتی ہے اور کیا کرے گی لیکن اس نے اپنے طور پر جو منصوبہ بنالیا تھا ‘ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ طالبان کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے ۔ ان باتوں کا علم کاف مین کو اس لیے تھاکہ وہ ڈیوڈ ڈورون کا بھائی تھا اور اسے بھی مسلمانوں سے شدید نفرت تھی ۔ یہ لوگ کئی مسلم ممالک میں سرگرم ہیں ۔ جب تم اس فائل کو پڑھو گی تو تمھیں اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک باتوں کا علم ہوگا جو میں ابھی تم سے رواروی میں کرچکا ہوں ۔ اسے بہت توجہ سے پڑھنے اور نوٹس لینے کی ضرورت ہے ۔ ‘‘ ’’ اس فائل کی کئی کاپیاں ہونی چاہئیں ۔‘‘ ’’ وہ تو ہیںکمانڈر.....! ان میں سے ایک بگ پرسن کے پاس ہے۔ ‘‘ ’’ اچھا ۔‘‘ میں کھڑی ہوگئی ۔ ’’ تو اب میں چلتی ہوں فائل آج ہی پڑھ لوں گی ۔ اس کے بعد ہی کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکتا ۔‘‘ ’’ تمھیں اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا کمانڈر!.....کاف مین کی ہلاکت کے باعث فری میسن لاج بھی تم تینوں کی جانی دشمن بن چکی ہوگی اور طالبان تو ہیں ہی !ہاسپٹل میں سونیا کی سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔‘‘ ’’ یہ بہتر ہوا ۔‘‘ جب میں مسٹر داراب کے کمرے سے نکلی تو کسی کیپٹن سے میرا سامنا نہیں ہوا ۔ میں نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ سب اپنے اپنے کمرے میں دبک گئے ہوں اور اس وقت میرا سامنانہیں کرنا چاہتے ہوں ۔ انھیں تحریری اطلاع مل چکی ہوگی کہ اب وہ میرے ماتحت ہیں ‘ لیکن میں ان سے ایسا کوئی برتائو نہیں کرنا چاہتی تھی کہ انھیں احساسِ کم تری ہو۔ میں آفس کی عمارت سے نکل کر پارکنگ شیڈ میں کھڑی ہوئی اپنی کار میں وہاں سے روانہ ہوئی۔ میں اس وقت دو خواہشات میں بٹی ہوئی تھی ۔ ایک خواہش تو یہ تھی کہ بانو کے گھر جائوں لیکن یہ بھی ضروری تھا کہ میں گھر جاتی اور بیڈ روم میں بیٹھ کر اس فائل کا مطالعہ کرتی جس میں کاف مین کی ڈائری کے پرنٹ تھے ۔ بانو سے ملنے کی خواہش دو وجہ سے بھی تھی ۔ ایک تو میں ان سے ’’اپنی الٹرابلٹ پروف کار‘ ‘کی دیگر خصوصیات جاننا چاہتی تھی ، دوسرے میرے ذہن میں یہ خلش بھی تھی کہ بانو نے مرکز کا نقشہ اور کاف مین کے مکان کی ڈرائننگ مسٹر داراب کو موبائل فون سے کیسے بھیجی تھی ۔آخر کیسے ممکن تھا ؟ ڈرائیو کرتے ہوئے جلد ہی میں نے بانو سے ملنے کی خواہش دبادی اور گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ زیادہ اہم تھا کہ میں فائل کا مطالعہ کرتی ۔ یکایک مجھے محسوس ہوا کہ اس سڑک پر ٹریفک جام ہے جس پر میں جارہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ میری کار اس ٹریفک میں پھنس جاتی ‘ میں نے اسے ایک گلی میں موڑ لیا ۔ اس طرح میں دوسری سڑک پر پہنچ سکتی تھی لیکن معلوم ہوا کہ اس سڑک پر بھی ٹریفک جام ہے ۔ میں نے خود کو پھر اس ٹریفک میں پھنسنے سے بچایا جس کے لیے مجھے ایک بہت پتلی گلی میں مڑنا پڑا تھا ۔ ڈرائیو کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت تھی لیکن دو گلیوں سے نکل کر میں نے ایک اور سڑک پر پہنچنا چاہا لیکن وہاں بھی ٹریفک جام تھا ۔ میں جھنجھلا سی گئی ۔کیا سارے شہر کا ٹریفک جام تھا؟ آخر میں نے کار ایک ایسے راستے پر ڈال دی جو بڑی حد تک ویران ہی رہتاتھا ۔ اس راستے سے گھر پہنچنے میں مجھے دُگنا وقت لگتا لیکن مجبوری تھی ۔ ایک کار سامنے سے آرہی تھی جو میرے برابر سے گزر گئی ۔میں نے سائڈ مرر میں دیکھا کہ چار کاریں میرے پیچھے آرہی تھیں ۔ میں نے سمجھا کہ وہ لوگ بھی ٹریفک جام میں پھنسنے کی بہ جائے اس سڑک پر نکل آئے تھے ۔ مجھے ان پر کوئی شبہ نہیں ہوا ورنہ میں اسکرین پر عقبی منظر کو زوم کرکے دیکھتی لیکن معاملہ کچھ اور ہی نکلا ۔ بانو کی آواز سن کر میں نے اسکرین کی طرف دیکھا ۔ بانو کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا اور وہ کہہ رہی تھیں ۔’’ یہ اتفاق ہے صدف کہ میں نے تمھاری کار سے رابطہ کیا ۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ تم کار میں ہو تو کدھر جارہی ہو۔ یعنی میری طرف آنے کا ارادہ ہے یا کہیں اور جارہی ہو ۔ !میں گھر ہی جارہی تھی بانو! جگہ جگہ ٹریفک جام ملتا رہا تو میں اس سڑک پر آ نکلی ۔‘‘ ’’ تمھارے پیچھے چار کاریں ہیں اور میں نے دیکھ لیا ہے کہ چاروں ہی کاروں میں غیر ملکی لوگ ہیں ۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ وہ تمھارے لیے کسی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ میں نے بے اختیار سائڈ مرر پر نظر ڈالی ۔ چاروں کاروں کی رفتار میں خاصہ اضافہ ہوچکا تھا ۔ وہ تیزی سے میری طرف آرہی تھیں ۔ ’’ بانو!‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اب وہ تیزی سے میری طرف آرہی ہیں۔ ’’ ابھی تم اپنی کار کی صفات سے واقف نہیں ہو اس لیے اسٹیرنگ اور گیر وغیرہ سے ہاتھ پیر ہٹالو ۔ میں تمھاری کار اپنے کنٹرول میں لے رہی ہوں ۔‘‘ ’’ ریموٹ؟‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ ہاں‘‘ کیا بانو کا خیال درست تھا ؟ کل کے روزنامہ 92نیوزمیں پڑھیے! ٭٭