سونیا نے میرے خیال سے اتفاق کیا ، پھر کہا ۔’’ اور ابھی ہمیں چھپنے کے لیے کوئی ٹھکانا بھی نہیں ملا ! بانو بھی ابھی نہیں لوٹیں!‘‘ ’’ ایک گھنٹا تو گزر گیا ۔‘‘ مجھے بھی تشویش تھی ۔ ’’ وہ ہماری تلاش میں سارا علاقہ کھنگال ڈالیں گے ۔‘‘ میرا اشارہ طالبان ہی کی طرف تھا ۔ ’’ اب ہمارے پاس کوئی بڑا ہتھیار بھی نہیں ہے ۔‘‘سونیا نے کہا ۔’’ سب کچھ سامان کے تھیلوں میں تھا۔‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا جدھر بانو گئی تھیں ۔’’بس چاقو ، ریوالور اور اس کے کچھ فالتو رائونڈ ہیں ۔اگر کہیں ان درندوں سے مقابلے کی نوبت آہی گئی تو ہم کم زور پڑیں گے ۔ ان کے پاس تو جدید ترین ہتھیار بھی ہیں ۔ ‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ جن لوگوں کو اسرائیل اور دیگر کئی بڑے ملکوں کی سرپرستی حاصل ہو ، ان کے پاس تو سبھی کچھ ہوگا ۔اینٹی ائیر کرافٹ گن تک کی موجودگی ہمارے سامنے آچکی ہے جس نے ہمارا ایک طیارہ مار گرایا تھا ۔‘‘ اسی وقت میں نے عقب میں آہٹ سنی تو تیزی سے مڑی ۔ میں نے اپنا ریوالور بھی نکال لیا تھا ۔ بالکل ایسا ہی سونیا نے بھی کیا تھا ۔ ’’ صدف! ‘‘ میں نے بانو کی آواز سنی ۔ عقب میں آہٹ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی تھی ۔ بانو کی آواز سن کر میں نے سکون کا سانس لیا ۔ عقب سے وہی آئی تھیں ۔ ’’ لو یہ ڈوری پکڑو ۔‘‘ بانو نے کہا اور ہاتھ میری طرف بڑھایا ۔ ’’ یہ کہا ںسے آگئی ؟‘‘ سونیا فوراً پوچھ بیٹھی ۔ ’’ ایک مکان میں سے اٹھا لائی ہوں ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔’’سونیا ! تم ڈوری کے سہارے تین چار گز کے قریب آگے آجائو ۔ ڈوری کا آخری سرا ، میں پکڑے ہوئے ہوں ۔ میں تم سے چار گز آگے رہوں گی اور زمین پر رینگتے ہوئے ہی آگے بڑھوں گی ۔ تم دونوں میرے پیچھے پیچھے آنا ۔ ڈوری پکڑے رہنا اس لیے ضروری ہے کہ اندھیرے میں ہم ایک دوسرے سے بچھڑ نہ جائیں ۔‘‘ بانو نے اس کے بعد ہماری کسی بات کا انتظار نہیں کیا اور رینگتی ہوئی اسی طرف بڑھیں جدھر سے آئی تھیں ۔ سونیا میرے ساتھ رکی رہی ۔ میں نے اس سے کہا ’’ ہاں! اندازہ ہوجائے گا کہ اب تین چار گز آگے نکل گئی ہیں ۔ پھر تم ڈوری پکڑے پکڑے ان کے پیچھے رینگنا شروع کرنا ۔‘‘ ’’ میں سمجھ گئی ہوں ۔‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ بانو نہیں چاہتیں کہ ہم تینوں ساتھ ساتھ رہیں ۔ اس طرح دیکھ لیے جانے کا اندیشہ زیادہ ہوگا۔‘‘ ’’ ہوں۔‘‘ میں وقت کا اندازہ لگارہی تھی ۔ رینگتی ہوئی بانو اندھیرے میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی تھیں ۔ جب میں نے اندازہ لگایا کہ وہ تین چار گز آگے نکل چکی ہوں گی ، تب میں نے سونیا سے کہا۔’’ اب تم چلو ۔‘‘ جس ڈوری کا سرا بانو نے مجھے دیا تھا ، اسی ڈوری کو ڈھیلے ہاتھ میں لیے ہوئے سونیا ، بانو کے پیچھے رینگ گئی ۔ میں خود کو رینگنے کی پوزیشن میں لے آئی لیکن اس وقت حرکت میں آئی جب ڈوری میں تنائو آیا ۔ اس تنائو سے میں نے سمجھ لیا کہ ڈوری آٹھ نو فٹ سے زیادہ لمبی نہیں تھی ، اور اگر زیادہ بڑی تھی بھی تو بانو نے اسے آٹھ نو فٹ کے بعد سختی سے پکڑ لیا تھا ۔ اب یہ سب کچھ لکھتے ہوئے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ وہ منظر مجھے مضحکہ خیز سا لگتا ہے کہ بانو ، سونیا اور میں ایک ڈوری پکڑے ہوئے ، رینگتی ہوئی کسی جانب بڑھ رہی تھیں لیکن جب ہم تینوں اس سچویشن میں تھیں تو میرے اعصاب میں تنائو تھا ۔دل و دماغ میں یہ خیال جا گزیں تھا کہ اگر ہمیں دیکھ لیا گیا تو خود کو بچانا قریب قریب نا ممکن ہی ہوتا کیونکہ ہمارے پاس لڑنے کے لیے کوئی بڑا ہتھیار نہیں تھا جس سے مقابلہ کیا جاسکتا ۔ طالبان کے اس مرکز کا منظر وہی تھا جو میں نے دراڑ سے اندر آنے کے بعد دیکھا تھا ، کچھ آدمیوں کے سائے اور وہ محدود روشنیاں جو ہر سایہ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھا ۔وہاں میں نے کسی قسم کی ہلچل نہیں دیکھی جس کا اندیشہ لاحق ہوا تھا ۔ اب مجھے یاد نہیں کہ ہم کتنی دیر تک رینگتے رہے تھے ، میں اس وقت چونک گئی جب میں نے محسوس کیا کہ میں رینگتی ہوئی کسی مکان کے دروازے میں داخل ہوئی تھی ۔ وہاں بانو اور سونیا کھڑی ہوئی تھیں ۔ انہیں کھڑا دیکھ کر میں بھی کھڑی ہوگئی ۔ بانو نے فوراً دروازہ بند کرلیا ۔ اندھیرا ہونے کے باعث ہم تینوں ایک دوسرے کی موجودگی محسوس نہیں کرسکتے تھے ، اگر ہمارے درمیان کچھ فاصلہ ہوتا ۔ ’’ میں جارہی ہوں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ باہر سے کنڈی لگا دوں گی ، لیکن بس دو ایک منٹ کے بعد پیچھے کی کھڑکی سے اندر آجائوں گی ۔ دروازہ بند ہونے کے بعد تم ٹارچ روشن کرلیناصدف!‘‘ ہمیں کچھ بولنے کا موقع دیئے بغیر بانو دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھیں ۔ ہم نے کنڈی لگنے کی مدھم سی آواز بھی سنی ۔ ’’ مائی گاڈ ‘‘میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ بانو ہمیں کس کے مکان میں لے آئیں !‘‘ سونیا نے ٹارچ نکال کر جلائی اور اس کی روشنی اِدھر اُدھر ڈالی ۔ کمرا آٹھ فٹ کے قریب چوڑا اور آٹھ فٹ سے کچھ ہی زیادہ لمبا تھا ۔ سامان کی قسم سے وہاں کچھ زیادہ چیزیں نہیں تھیں ۔ ایک طرف لوہے کے پلنگ پر قدرے صاف ستھرا بستر تھا ۔ اس کے قریب ہی اسٹول پر سگریٹ کا ایک پیکٹ پڑا تھا ۔ایک گوشے میں دو ٹرنک رکھے تھے ۔ مختلف قسم کے کچھ کپڑے کھونٹوں سے لٹکے ہوئے تھے ۔ چھت سے تیز روشنی کا بلب لٹکا ہوا تھاجو اس وقت روشن نہیں تھا۔ کمرے کی دو طرف کی دیواروں میں کھڑکیاں تھیں اور دروازے کی مخالف سمت کی دیوار میں ایک دورازہ تھا ۔ ’’ اس طرف کمرا ہی ہوگا ۔‘‘ سونیا بولی۔ ’’ بانو نے عقبی کھڑکی سے اندر آنے کے لیے کہا تھا ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ وہ کھڑکی اسی کمرے میں ہوگی ۔‘‘ ’’ اس کمرے میں چلیں ؟‘‘ ’’ چلو ۔ بانو کو آنا بھی ادھر ہی سے ہے ۔‘‘ میں نے اور سونیا نے اس دروازے کی طرف قدم بڑھائے ۔ دروازہ کھول کر ہم نے اس کمرے میں قدم رکھے جہاں جو کچھ بھی تھا، اسے کاٹھ کباڑ ہی کہا جاسکتا ہے ۔دروازے کی مخالف سمت میں ایک کھڑکی نظر آئی تھی جو اندر سے بند نہیں تھی ۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ پہلے کمرے کی دونوں کھڑکیاں بند تھیں ۔ کاٹھ کباڑ کی وجہ سے قیاس کیا جاسکتا تھا کہ وہ کمرا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہوگا ۔ سونیا بولی ۔’’ کیا بانو نے یہ سمجھا ہے کہ یہ مکان ہمارا خفیہ ٹھکانا بن سکتا ہے ؟‘‘ ’’ وہ جس طرح ہمیں یہاں لائی ہیں اور خود اس کھڑکی سے اندر آئیں گی ، اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔ بانو نے کہا تھا کہ وہ دو ایک منٹ میں آجائیں گی لیکن وہ نہیں آئیں اور کئی منٹ گزر گئے تو مجھے اور سونیا کو تشویش لاحق ہوئی ۔ پھر اس وقت تو میرا دل یک بار گی اچھل پڑا جب وہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی جس سے ہمارا اس مکان میں آنا ہوا تھا،اور پھر جو چاپ سنائی دی،وہ بانو کی ہر گز نہیں ہوسکتی تھی ۔ وہ کوئی مرد تھا جو بے سُرے انداز میں کوئی پشتو دُھن گنگناتا ہوا اندر آیا تھا ۔ کیا صدف اور سونیا وہاں پھنس گئیں؟ کل کا روزنامہ 92پڑھیے!