میں دم بہ خود کھڑی ان دونوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ درمیانی فاصلہ اتنا تھا کہ میں پیچھے گر کر تیزی سے پھسلتی ہوئی ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ بانو کے گھر میں تو یہ حربہ میں نے کام یابی سے استعمال کیا تھا۔ ’’تم نے جہازکو سگنل دے کر مروایا ہے ہمارے دو ساتھیوں کو !‘‘ ان میں سے ایک دانت پیستا ہوا بولا۔ ’’اس طرف ہٹ جا! ‘‘دوسرے نے مجھے حکم دیتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا۔ میرا دماغ اس وقت ٹھس ہوکر رہ گیا تھا۔ کوئی ایسی تدبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ کوئی مثبت اقدام کرسکوں۔ مجھے اس کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ ’’کیا دیکھ رہی تھی یہ ادھر؟ ‘‘مجھے حکم دینے والا تیزی سے اس جگہ پہنچا جہاں میں کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے جھانک کر نیچے دیکھا۔ ’’اس کے ساتھ اوربھی ہیں۔‘‘ اس نے بڑی تیزی سے اپنے ساتھی کو بتایا اور اپنی کلاشنکوف کی نال بیرونی رخ پر جھکائی۔ میرے تین ساتھی اس کی زد پر تھے۔ میں نے اپنی جان پر کھیل کر، ان تینوں کو ہوشیار کرنے کے لیے چیخنا چاہا لیکن میرے چیخنے سے پہلے ہی کلاشنکوف کا برسٹ چل چکا تھا۔ میرا دل سینے میں بیٹھ گیا۔ ’’تین اور تھے۔ ‘‘اس نے پھر اپنے ساتھی کو بتایا۔ ’’ختم کردیا انھیں۔ رسّے سے اترے تھے۔ اسی سے چڑھے بھی ہوں گے۔ ‘‘ ’’کیسے پہنچے تھے تم لوگ اس مکان تک؟ ‘‘زینے کے قریب کھڑے ہوئے طالب نے مجھے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا، پھر میرے جواب سے پہلے ہی دوسرا سوال بھی داغ دیا۔’’ آئی ایس آئی کی ہو یا ایم آئی کی؟‘‘ ’’میں پاکستان کی ہوں۔ ‘‘جواب دیتے ہوئے مجھے احساس تھا کہ میرا آخری وقت بھی سر پر آگیا ہے۔ ’’طیارہ اور ہیلی کوپٹر اسی نے منگوائے ہوں گے۔ ‘‘دوسرا طالب بولا۔ ’’جیپ کی طرح اس مکان کا سگنل بھی دیا جاچکا ہوگا۔ اس کے نکل جانے کے بعد طیارہ یہاں راکٹ برسائے گا۔‘‘ ’’اگر راکٹ برسیں گے تو ہماری شہادت بھی یقینی ہوگی، لیکن اس سے پہلے اس کافرہ کو جہنم رسید کردیا جائے۔ ‘‘پہلے طالب نے دانت پیستے ہوئے مجھے اپنی کلاشنکوف کا نشانہ بنانا چاہا ہی تھا کہ دوسرا بول پڑا۔ ’’ٹھہرو!… اسے ہمارے ساتھ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مرنا چاہیے۔ راکٹ برسنے کا انتظار کرو۔‘‘ میں نے پرامید نظروں سے پہلے طالب کی طرف اس لیے دیکھا کہ اگر کچھ مہلت مل جاتی تو شاید مجھے کچھ کر گزرنے کا موقع مل جاتا۔ ’’ہوں۔ ‘‘پہلے طالب نے مجھے گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا اور مجھے گھورتے ہوئے بولا۔ ’’اگر اپنی زندگی چاہتی ہو تو کسی طرح طیارے کو راکٹ نہ برسانے کا سگنل دو۔‘‘ ’’کوشش کرتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔’’ کیا میں سامان میں سے اپنا سیٹلائٹ فون نکال لوں؟‘‘ ’’نکال لو! ‘‘جواب دیا گیا۔’’ کیا اس پر طیارے سے رابطہ ہوجائے گا؟‘‘ میں نے سیٹلائٹ فون نکالا۔ ’’تم نے جواب نہیں دیا۔ ‘‘مجھ سے کہا گیا۔ ’’طیارے سے رابطہ ہوجائے گا اس سے؟ ‘‘اس کا اشارہ سیٹلائٹ فون کی طرف تھا۔ ’’میں ہائی کمان سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں۔ وہاں سے طیارے کو پیغام دیا جاسکتا ہے۔‘‘ ’’تو جلدی کرو۔ ‘‘بے تابی سے کہا گیا۔ لیکن میں صرف وقت گزارنا چاہتی تھی۔ مجھے اپنی زندگی سے زیادہ ان سیکڑوں لوگوں کی زندگی عزیز تھی جنہیں ختم کرنے کے لیے یہاں بہت زیادہ خود کش جیکٹ تیار کیے جارہے تھے۔ کوئی بہت ہی خطرناک پلان بنایا تھا ان لوگوں نے! اس مکان کی تباہی ضروری تھی۔ اس کے لیے اسی وقت میرے تین ساتھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ایسے موقع پر مجھے صرف اپنی زندگی بچانے کی خواہش ہوتی تو یہ وطن سے غداری کے مترادف ہوتا۔ میں ان دونوں کو دکھانے کے لیے سیٹلائٹ فون کے بٹن دباتی رہی۔ ’’اتنی دیر لگ رہی ہے! ‘‘ایک طالب غرایا۔ ’’تمھارے سامنے ہی کوشش کررہی ہوں۔ ‘‘میں نے کہا۔’’ کیا مجھے اپنی زندگی عزیز نہیں ہوگی؟‘‘ طالبان کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ انتظار کریں۔ اس وقت وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ایک نے کہا۔ ’’ہمارے اس اڈے کو تباہ کرنے میں طیارہ کتنی دیر لگا سکتا ہے۔‘‘ ’’یہ تو طے کیا گیا ہوگا کہ سگنل ملنے کے بعد طیارہ اتنی دیر بعد راکٹ برسائے یا بم گرائے کہ اتنی دیر میں ان لوگوں کو یہاں سے نکل جانے کا وقت مل جائے۔‘‘ ’’کتنا وقت ہوسکتا ہے؟‘‘ ’’ان لوگوں کو یہاں سے نکلنے اور یہاں سے دور ہوجانے میں کتنا وقت لگتا؟‘‘ ’’پندرہ بیس منٹ کا وقت تو ہونا چاہیے۔ اس سے پوچھتے ہیں۔‘‘ اشارہ میری طرف تھا۔ ’’مکان کتنی دیر بعد ٹارگٹ کیا جائے گا؟ ‘‘مجھ سے پوچھا گیا۔ ’’ابھی بیس منٹ باقی ہیں۔ ‘‘ ان کے لیے یہ تسلی ضروری تھی ورنہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ مجھے ختم کرکے یہاں سے بھاگ نکلتے۔ حقیقت یہ تھی کہ اب اتنا وقت نہیں رہا تھا اور میں کسی نہ کسی بہانے وہ وقت گزارنا چاہتی تھی۔ ان دونوں کو بھاگ نکلنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ ان دونوں کے ساتھ میں بھی ہلاک ہوتی لیکن میں نے خود کو ذہنی طور پر موت قبول کرنے کے لیے تیار کرلیا تھا۔ ’’تم ہمیں بے وقوف بنارہی ہو! ‘‘ایک طالب غرایا۔’’ تم نے سوچا ہے کہ اس مکان کی تباہی میں نہیں مروگی تو ہمارے ہاتھوں مروگی۔‘‘ ’’یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘میں نے بوکھلاہٹ کا اظہار کیا۔ ’’دو نمبر اور ہیں۔ میں اب انھیں آزماتی ہوں۔‘‘ ’’ہم تمہیں بس دو منٹ اور دیں گے۔‘‘ ’’میں کوشش تو کررہی ہوں۔ ذرا صبر سے کام لو!‘‘ لیکن انھیں صبر سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ زینے کی طرف سے گولیوں کا ایک برسٹ چلا تھا اور وہ دونوں اپنے زخمی جسم کے ساتھ ڈھیر ہوگئے تھے۔ وہ گولیاں کس نے چلائی تھیں؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!