اتنی گولیاں تھیں اس برسٹ میں کہ ہم تینوں کے جسم چھلنی ہوجاتے لیکن ایسا معلوم ہوا جیسے وہ ہم تینوں تک پہنچنے سے پہلے کسی چیز سے ٹکرا گئیں ۔ یہ ایک حیران کن بات تھی ۔ خود طالب بھی ہکا بکا رہ گیا تھا۔اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔اس کی دم بہ خود رہ جانے والی اس کیفیت ہی سے بانو نے فائدہ اٹھایا ۔ ان کے ہاتھ سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی اور بانو کے ریوالور سے نکلی ہوئی گولی نے طالب کی پیشانی میں سوراخ کردیا ۔ وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر گرا ۔ اس وقت میرا سارا جسم سنسنانے لگا تھا ۔ شاید یہی کیفیت سونیا کی بھی ہوگی ۔ میں نے اس کیفیت میں بھی ٹارچ روشن کی ۔ اس روشنی میں مجھے وہ شیشہ دکھائی دیا جو بانو کے ہاتھ سے گر کر نہیں ٹوٹا تھا ۔ اس پر ان گولیوں کے نشانات تھے جو طالب نے چلائی تھیں ۔ اسی وقت بیرونی کمرے کے دروازے کی طرف سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی ۔ ان لوگوں نے طالب کے چلائے ہوئے برسٹ اور بانو کے فائر کی آواز یقینا سنی ہوگی اور اسی لیے دوڑ پڑے تھے ۔ ’’ تم دونوں کھڑکی سے باہر نکلو۔‘‘بانو نے تیزی سے کہا ۔ ’’ میں ان لوگوں کو اندر آنے سے روکتی ہوں ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے گن سنبھال لی تھی اور کمرے کے دروازے پر گولیاں برسانے لگی تھیں جو تھوڑا سا کھلا ہوا تھا ۔ ادھر سے کچھ ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دیں ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو وہ گولیاں لگی ہوں گی جو بانو نے چلائی تھیں ‘ اور پھر دوسری طرف سے بھی گولیاں چلنے لگیں جو تھوڑے سے کھلے ہوئے دروازے سے بھی اندر آرہی تھیں اور دروازے کو توڑتی ہوئی بھی لیکن ہم تینوں آڑ میں ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے ۔ ’’ جلدی کرو صدف!‘‘ بانو نے پھر کہا ۔’’ کاف مین کے مکان تک پہنچو ،میں بھی آتی ہوں ۔ ابھی ان لوگوں کو روک رہی ہوں ۔‘‘ ’’مجھے سب معلوم ہے ۔ جلدی نکلو تم دونوں ! اسی ڈوری کے سہارے !درمیان میں فاصلہ کم رکھنا۔جلدی نکلو !‘‘ اس مرتبہ بانو کا اندازہ ایسا تھا جیسے حکم دے رہی ہوں ۔ اس کے بعد مجھ سے حوصلہ نہیں رہا کہ کچھ اور کہتی ۔ میں نے وہ ڈوری اٹھالی جو ایک مرتبہ پہلے بھی استعمال کی تھی ۔ میں نے سونیا کو بھی اشارہ کیا ۔ اس وقت بانو نے گولیاں چلانے کی رفتار میں مزید اضافہ کیا۔ کھڑکی ‘ دروازے کے عین سامنے تھی ۔ ابتدا میں طالبان کی گولیاں اس پر بھی پڑی تھیں لیکن اب کوئی گولی کھڑکی کی طرف نہیں آرہی تھی ۔ بانو کی چلائی ہوئی گولیوں سے بچنے کے لیے وہ بھی اِدھر اُدھر ہوگئے تھے اس لیے ان کی چلائی ہوئی گولیاں کمرے میں آڑی ترچھی ہو کر آرہی تھیں ۔ پہلے میں کھڑکی سے باہر نکلی ‘ پھرسونیا ۔ڈوری کا ایک سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا ۔ سونیا نے چار گز پیچھے سے ڈوری پکڑی تھی ۔ ہم دونوں نے فوراً ہی سنگلاخ زمین پر رینگنا شروع کردیا ۔ پچھلی مرتبہ کی بہ نسبت اس موقع پر زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی جس کے باعث کہنیاں اور گھٹنے چھلنے لگے تھے لیکن یہ موقع ایسا تھا کہ سب کچھ برداشت کرنے کی ضرورت تھی ۔ گزشتہ رات کی بہ نسبت اس وقت وہاں اِکا دُکا نہیں ، بیشتر سائے دوڑتے نظر آئے جن کا رخ کاکڑ کے مکان کی طرف تھا ،اور یہ ہمارے حق میں بہتر تھا ۔ وقفے وقفے سے گولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہیں ۔ میں اور سونیا آگے بڑھتے رہے ۔گزرتے وقت کے ساتھ بانو کے لیے میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی ۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ ہمارے پیچھے آئیں گی لیکن اب تک اس کے آثار نظر نہیں آئے تھے ۔ پھر فائرنگ کی آواز رک بھی گئی ۔ مقابلہ رک چکا تھا ۔ اس کے بعد کچھ ہی دیر میں بانو کو ہم سے آملنا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں آئیں ۔ میں اور سونیا ‘ کاف مین کے مکان کے قریب بھی پہنچ گئے لیکن بانو نہیں آئیں ۔ کاف مین مکان کے دروازے پر کھڑا تھا ۔ اس کے چہرے سے پریشانی صاف ظاہر ہورہی تھی ۔ وہ اسی طرف دیکھ رہا تھا جدھر سے گولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہی تھیں ۔ میں مکان سے کچھ فاصلے پر رک گئی تھی اس لیے سونیا میرے قریب آگئی ۔ ’’ بانو.....نہ جانے.....‘‘ وہ سرگوشی میں بولی ۔ اس نے مبہم الفاظ کہے تھے لیکن مطلب صاف ظاہر تھا ۔ ’’ ان کے لیے میں بھی پریشان ہوں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اس شخص کو دیکھ رہی ہو؟.....یہی کاف مین ہے ۔‘‘ ’’ میں سمجھ گئی تھی ۔ ‘‘ کاف مین مڑ کر اندر چلا گیا ۔ پریشانی میں اسے دروازہ بند کرنے کا بھی خیال نہیں رہا تھا ۔ ’’ اچھا موقع ہے ۔‘‘ میں نے سونیا سے کہا ۔’’ آئو!‘‘اب میں رینگنے کی بہ جائے بس جھکی ہوئی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی ۔ سونیا نے میرا ساتھ دیا ۔ اب میں نے ڈوری اس خیال سے لپیٹ لی تھی کہ شاید پھر اس کی ضرورت پڑے ۔ میں اور سونیا مکان میں داخل ہوگئیں ۔وہ میرا دیکھا ہوا تھا ۔ اس کمرے تک بھی آسانی سے رسائی ہوگئی جو کاف مین کا بیڈ روم تھا ۔ اس علاقے کے سارے مکان بہت معمولی تھے ۔ بیرونی دیواروں پر پلاسٹر تو نظر آیا تھا لیکن اس پر رنگ نہیں کیا گیا تھا ۔ ہم نے جس مکان میں ٹھکانا بنایا تھا وہاں کی دیواروں پربھی رنگ نہیں کیا گیا تھا لیکن کاف مین کا مکان ایسی بے توجہی کا شکار نہیں دکھائی دیا تھا ۔ خود کاف مین نے ہی طالبان سے اپنا مکان بہتر انداز میں بنوایا تھا ۔ اس کی خواب گاہ بھی قاعدے کی تھی ۔ بیڈ روم کا دروازہ بھی تھوڑا سا کھلا نظر آیا ۔ کاف مین کی آواز بھی سنائی دی ۔ وہ پشتو میں کہہ رہا تھا ۔ ’’ خاصا وقت ہوگیا۔ اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا ؟‘‘ پھر دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد اس نے کہا ۔ ’’ اچھا‘ جیسے ہی کچھ معلوم ہو‘ مجھے اطلاع دینا ‘ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ میں نے جھانک کر دیکھا کہ وہ موبائل بستر پر ہی ڈال رہا تھا ۔ مجھے اس پر قطعی حیرت نہیں تھی کہ کاف مین پشتو جانتا تھا ۔ طالبان کے ساتھ کام کرنے کے لیے اس نے پشتو سیکھی ہی ہوگی ۔ جب میں نے اسے ملا فضل اللہ سے پشتو میں بات کرتے دیکھا تھا تو مجھے کرنل تھا مس ایڈورڈ لارنس یاد آگیا تھا جو عربی لباس پہن کر عربوں سے جا ملا تھا۔ برطانیہ نے اس کے ذریعے سعودی عرب میں اپنی خواہش کے مطابق حکومت قائم کروائی تھی ۔ بعد میں اس پر ’’ لارنس آف عربیہ ‘‘ کے نام سے فلم بنی تو وہ اسی نام سے مشہور ہوگیا ۔وہ عربی سیکھ کر عرب پہنچا تھا ۔ جب کاف مین کے قدموں کی آواز دروازے کی طرف آتی سنائی دی تو میں اور سونیا دروازے کے دائیں بائیں دیوار سے چپک کر کھڑی ہوگئیں ۔ پھر جیسے ہی کاف مین باہر نکلا ‘ میں نے ریوالور کی نال اس کی کنپٹی سے لگا دی ۔ ’’ ہاتھ اوپر اٹھائو کاف مین !‘‘ میں نے پشتو ہی میں کہا ۔’’ ورنہ ایک گولی تمہارے دماغ میں سوراخ کردے گی ۔‘‘ بانو کے ساتھ کیا گزری؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے!