بڑے بھائی جان اس برس فروری میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور حکومت پاکستان کے ایک مشترکہ کپیسٹی بلڈنگ کورس کے سلسلے میں قریباً ایک ماہ کے لیے اٹلی گئے ،یہ 19ویں ، 20ویں گریڈ کے آفیسرز کا ایک گروپ تھا۔اٹلی میں ایک ماہ قیام کے دوارن انہیں شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے بائی سائیکلیں دی گئیں اور کہا گیا کہ شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے یہی آپ کی سواری ہے۔اب یہ سارے پاکستانی مارکہ افسر تھے، جنہوں نے آخری دفعہ سائیکل شاید آٹھویں جماعت میں چلائی ہو اور اب برسوں سے انہیں سڑکوں پر گاڑیاں دوڑانے کی عادت تھی۔ بھائی جان نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ سکول کے زمانے کی چھوڑی ہوئی سائیکل ہم نے وہاں اٹلی کی سڑکوں پر چلائی اور بہت لطف آیا، ایسا لگا کہ جیسے پرانا وقت لوٹ آیا ہو۔بھائی جان کی واپسی پر ان سے استفسار کیا گیا کہ اٹلی میں تو آپ سائیکل چلاتے رہے ہیں تو کیا ارادہ ہے کہ پاکستان میں بھی اپنے آفس سائیکل پر جایا کریں گے ، جواب تھا ویسا ہی ماحول ملے تو چلاسکتے ہیں۔ اٹلی میں سائیکل چلانا اس لیے اچھا لگا کہ وہاں سائیکل چلانے کا ماحول ہے سڑکیں صاف ستھری ہیں، فضا صاف ہے اور آپ کے اس پاس سینکڑوں لوگ سائیکل چلاتے ہوئے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں سائیکل چلانا عجیب نہیں لگتا۔سو بھائی جان پاکستان واپس آکر دوبارہ سے پاکستانی ہو چکے ہیں کہ صاف ستھری سڑکوں پر چلائی ہوئی سائیکل کا تجربہ اب صرف سفرکی خوبصورت یادداشت کا حصہ ہے۔لیکن آفرین ہے ایم اے او کالج کی پرنسپل میڈم عالیہ رحمان پر کہ جو لاہور جیسے پر ہجوم اور ٹریفک کے ہنگام سے لبریز شہر میں سائیکل چلا رہی ہیں، وہ اکثر اپنے گھر سے کالج سائیکل پر جاتی ہیں۔ وہ کالج کی پرنسپل ہیں یہ کوئی عام بات نہیں ہے کہ آپ کالج کے سربراہ ہوں اورآپ ہر طرح کے سٹیٹس سمبل کو نظر انداز کر کے معاشرے میں ایک صحت مندانہ مثال قائم کرنے کے لیے عملی طور پر اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھیں،ڈاکٹر عالیہ رحمان کی سائیکل چلاتے ہوئے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر کیا آئی کہ لوگوں نے اسے بہت سراہا ۔ یوٹیوبرز اور ٹی وی چینلز ڈاکٹر عالیہ رحمان سے انٹرویو لینے کے لیے پہنچ گئے، اس طرح ان کا سائیکل چلانا شہر کی ایک فیمس سٹوری بن گیا، جسے بزبان انگریزی ہم ٹاک آف دا ٹاؤن کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بتایا کہ بچپن میں انہوں نے سائیکل چلانا سیکھی، اس وقت وہ سائیکل چلانا کرتی تھیں،اس کے بعد بہت عرصہ سائیکل نہیں چلائی، جب وہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آسٹریا گئیں تو وہاں انہوں نے دوبارہ سے سائیکل چلانا شروع کر دی۔اس سے اپنی صحت میں بھی بہتری محسوس کی۔ ایک روز وہ سائیکل پر گھر سے آفس گئیں، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ آدھے وقت میں اپنے کالج پہنچ چکی ہیں اور یہی سوچ کے انہوں نے دوبارہ سائیکل چلانا شروع کر دی۔ ان کو یہ اطمینان ہے کہ وہ بہت سارے نوجوانوں کو تحریک دے رہی ہے کہ وہ اس احساس سے کمتری سے نکلیں کہ ان کے پاس صرف گاڑی ہو یا موٹر سائیکل ہی ہو اور خاص طور پر وہ طالبات پبلک دوستوں کے انتظار میں بس سٹاپ پر کھڑے ہونے کی تکلیف سے گزرتی ہیں، اگر وہ سائیکل کو بطور سواری اپنے آنے جانے کے لیے استعمال کریں تو ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ حالانکہ وہ ایک ادارے کی سربراہ ہیں ان کو گاڑی اور ڈرائیور میسر میں اس کے باوجود انہوں نے سائیکل کو ترجیح دی کہ وہ نوجوان نسل کو یہ ترغیب دے سکیں کہ وہ سائیکل کی سواری کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔دنیا کے کئی ملکوں میں سواری کے طور پر آج بھی سائیکل کو پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔سائیکل سواری کی مقبولیت کے اعتبار سے نیدرلینڈ پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں پر 20 فیصد سیر و تفریح سائیکل پر ہوتی ہے وہاں حکومت نے سائیکل کے لیے مناسب انداز کے راستے بھی بنائے ہیں۔ناروے ایسا ملک ہے جہاں 60 فیصد آبادی سائیکل چلاتی ہے۔ یہاں پر بھی سائیکل فرینڈلی گلیاں راستے اور پاتھ ویز بنائے گئے ہیں ناروے میں 72 ملین سائیکلیں ہیں۔ چین اور اٹلی بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں سائیکل کی سواری وہاں کے کلچر کا حصہ ہے۔80 کی دہائی میں پاکستانی معاشرے کی سادگی کو نمود و نمائش کا ریلا بہا کر لے گیا۔ساری بات سرکاری آفیسر بھی سائیکلوں پر جاتے تھے۔ ایلس فیض ویو پوائنٹ کے دفتر سائیکل پر جایا کرتی۔تمام لڑکیاں نہیں تو کم از کم سکول کالج کے لڑکوں کی اکثریت سائیکل چلایا کرتی تھی۔پڑھے لکھے لوگ سائیکل پر دفتر جایا کرتے اور اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔90کی دہائی سے سائیکل آہستہ آہستہ متوسط طبقے کے استعمال سے کم ہوتی چلی گئی اور ختم ہوگئی۔ پاکستان میں سائیکلنگ کا ماحول بنانے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے شہروں میں سائیکل چلانے والوں کے لیے الگ سے راستے بنائے جائیں۔ یہاں فٹ پاتھوں کو بھی تجاوزات سے بھرنے کا رواج ہے۔ خریدو فروخت کی تجاوزات نہ ہوں تو پارکنگ والوں کا قبضہ فٹ پاتھوں پر ہو جاتا ہے۔دنیا کے جن ملکوں میں سائیکل چلانے کا رواج ہے وہاں حکومتوں نے سڑکوں کے انفراسٹرکچر پر سائیکل چلانے والوں کی سہولت کے لیے سائیکل راستے بنائے ہیں جن میں سائیکل سوار ترجیحات میں شامل ہیں۔ان راستوں گاڑیوں وغیرہ کے اچانک موڑکاٹ کر سڑک پر آنے کی ممانعت ہے۔پاکستان میں بھی سائیکل فرینڈلی روڈ انفراسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں سائیکل کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری آفیسر اور حکومتی نمائندے بھی وقتاً فوقتاً سائیکل استعمال کریں۔ٹی وی پر ایسے ڈرامے دکھائے جائیں جس میں کردار سائیکل چلاتے ہوئے نظر آئیںجبکہ ہمارے ہاں ٹی وی ڈراموں میں جب تک دولت کی نمود و نمائش بڑی بڑی گاڑیاں دکھائی جاتی رہیں گی عام لوگ سائیکل چلانے میں سہولت محسوس نہیں کریں گے۔ اور یہ بھی کہ سائیکل اس وقت تک پاکستانی معاشرے کا دوبارہ سے حصہ نہیں بن سکے گی جب تک پچاس پچاس گاڑیوں کے حکومتی پروٹوکول والے قافلوں پر پابندی نہیں لگتی۔