میرے لئے کبھی یہ بات اہم نہیں رہی کہ الیکشن کب ہوں گے اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔کیونکہ جس عمل کے ذریعے کروڑوں افراد کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے،اسے قابل اعتبار بنانے سے پہلے نسخہ کیمیا کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج تمام سیاسی قیادتوں کو امور مملکت چلانے کے لئے نااہل قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ہماری جمہوریت بھی 1947ء کی آزادی کی طرح داغ داغ اجالا ہے۔ شب گزیدہ سحر ہے، حالات مسلسل خراب ہیں، امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش نہیں، معاشی بحران ہے کہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، عالمی مالیاتی اداروں کا دبائو بڑھ رہا ہے، پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے،قرض تو کیا اتاریں سود کی ادائیگی کے لئے ہمیں مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔غریب غریب تر ہو رہا ہے،ملک کی مڈل کلاس تحلیل ہو رہی ہے۔ روزگار کے مواقع محدود ہو رہے ہیں، آبادی کی اکثریت انتہائی خوفناک مسائل سے دوچار ہے۔ پاکستان کی کرنسی کی قدر Nose downانداز میں گر رہی ہے،ملک کے اندر سیاسی حلقے اس تباہ حالی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت پر الزام لگاتے لگاتے خود رخصت ہو جاتی ہے، سیاسی حکومتوں اور حکومتی مشینری پر ہر طرف سے نااہلی کرپشن بدعہدی کے الزامات لگ رہے ہیں اور اسے موجودہ بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار رہا ہے، وہ گڈ گورننس فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہو گئے، اس لئے سچ پوچھیں تو لوگوں کی اکثریت اپنے خراب حالات کے باعث دانستہ سیاستدانوں اور حکومتی ڈھانچے کی کارکردگی سے بے زار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ میں تمام سیاسی جماعتوں کے عام کارکنوں سے ملتا رہتا ہوں، انہیں بجا طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اب تک کی قربانیاں رائیگاں گئی ہیں، ان کی پارٹیاں حکومت میں آتی ہیں، تو انہیں کچھ نہیں ملتا اجنبی لوگ سارے پھل اتار لیتے ہیں وہ بجا طور پر احساس کرتے ہیں کہ قوم بھی انہیں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتی۔ یہ جمہوریت جس شکل میں بھی ہے ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہے لیکن انہیں اپنے حلقے میں وہ عزت نہیں ملتی۔ان کے معاشی حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں جبکہ ایسے بہت سے خوش نصیب ہیں جو جدوجہد کے وقت کہیں نہیں ہوتے اور وہ تمام جمہوری حکومتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان کی پارٹیوں کے بہت سے عہدیدار اور وزیر خوشحال ہو گئے۔صورتحال میں بہتری کے لئے حقیقی سیاسی کارکنوں کی خواہش ہے کہ ملک کو آگے بڑھنے کے لئے سیاسی استحکام چاہیے معاشی Stabilityچاہیے حکومت تبدیل کرنے سے کام نہیں بن رہا ہے حالات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے حالات تبدیل کرنے کے لئے ہمیں اپنے ذہنی رویے تبدیل کرنے ہوں گے ،زندگی گزارنے کا نقطہ نظر بدلنا ہو گا۔اپنی زندگیوں میں اپنی پارٹیوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہو گا، سچی بات تو یہی ہے کہ عشق میں تو جنون کی دیوانگی کی آوارگی کی اور ہر چیز سے ٹکرانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ سیاسی کارکن کی وفاداری اور وابستگی کو صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی اور سینٹ کے ٹکٹوں میں بھی بہت کم ترجیح بنتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں بیورو کریسی اور فوج کا نظام کیوں طاقتور ٹھہرتا ہے اس لئے کہ ان دنوں نظاموں میں بتدریج تربیت اور ترقی کا نظام موجود ہے سیاست جس کے ذریعہ کروڑوں افراد کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں یہ نظام باضابطہ طور پر موجود ہی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے ہاں تربیت اور ترقی کے باقاعدہ سسٹم قائم کریں، پارلیمانی جمہوریت کی روح ہے کہ پارٹی کو حکومت پر بالادستی ہونی چاہیے۔ پارٹی اور حکومت کے عہدے الگ الگ ہونے چاہئیں پارٹی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں وزارتوں کے محکموں یا زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اس کی کمیٹیاں قائم ہونی چاہئیں، پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کو کابینہ پر فوقیت ہونی چاہیے اپوزیشن کے طوور پر یہ شیڈو کابینہ کے طورو پر کام کرے۔ اس کے بعد عمران خان یا شہباز شریف کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ صورت حال اس درجہ دگرگوں ہے ایسا کرنے کا پارٹیوں کو یہ فائدہ ملے گا کہ انہیں جب حکومت کرنے کا موقع ملے گا تو وہ حالات اور اعداد و شمار سے باخبر ہوں گی۔ بیورو کریسی انہیں بے خبر نہیں رکھ سکے گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ بیورو کریسی وزیروں پر غالب نہیں آ سکے گی۔ آپ دیکھ لیں کہ تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس وقت پاکستان میں گڈ گورننس کے حوالے سے دبائو بڑھا رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے تقاضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام اہم جماعتوں میں ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیں جو وقتاً فوقتاً اپنی اپنی سفارشات اور تجاویز تیار کرتی رہیں وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں یہ کام تمام جماعتوں میں ہوتے رہنا چاہیے۔ تاکہ پتہ تو چلے کہ کہاں پر کیا کیا کمزوریاں ہیں، مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے۔پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ آئل کمپنیوں اور اوگرا کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے یا اس کے کچھ دوسرے عوامل ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے میں کن لوگوں کی ملی بھگت شامل ہے۔ چینی کو ایکسپورٹ کر کے قلت پیدا کرنے میں کس نے کتنے ارب کمائے۔ بجلی کے بلوں میں یکدم اضافے کی وجہ کیا ہے۔محض اس کی وجوہات بتانے کی نہیں اس میں کمی کے طریقہ کار کی تجاویز مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ تمام اہم پارٹی کے سرکردہ لوگوں سے پوچھیں کہ یہ بحران کیوں پیدا ہو رہا ہے تو اقتدار کے لئے سب کچھ تہہ و بالا کرنے والے یہ لوگ یہ نہیں بتا رہے کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیاہے۔ ایک دوسرے پر تنقید کر کے صرف سہانے‘ خواب اور خوبصورت بیانیے بنا کر عام لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اب پاکستان کی محض ہڑ بونگ کرنے احتجاج کرنے والوں کی نہیں منتظمین کی ضرورت ہے اس وقت بے حال لوگوں کو جھوٹے وعدوں سے بہلاوے کی نہیں ان کے دعوے اور وعدے سن سن کر لوگ اکتا چکے ہیں اب ہمیں ایسے منیجرز کی ضرور ت جو اہل بھی ہوں۔ایماندار بھی ہوں جو اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھتے بھی ہوں تحریکوں کی جگہ تجویزوں کی ضرورت ہے۔