پاکستانیوں کو اب تفریح کیلئے سنسنی خیزی سے بھرپور ڈرامے دیکھنے کی ضرورت نہیں آئے روز کے یہ سیاسی پلے، لانگ پلے تفریح طبع کے لیے کافی ہیں۔ ان سیاسی دھینگا مشتیوںمیں ٹی وی چینلوں کا بھی فائدہ ہی فائدہ ہے ورنہ اپنے مسائل میں پھنسے مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کیلئے حالات حاضرہ کی سن گن رکھنے میں بھلا کون سی بشارتیں چھپی ہیں۔ سو ایک ہنگامے پے گھر کی رونق کا موقوف ہونا اب سمجھ میں آتا ہے۔ایک طرف لوگ اپنے اپنے سیاسی موقف کی جیت کی خوشخبری سناتی بریکنگ نیوز کے انتظار میں رہتے ہیں دوسری طرف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر بھی سیاسی جگتوں، پوسٹوں، میمز نے ایک رونق لگا رکھی ہے ۔سیاسی حالات کی یہ رونق بازار ہر وقت خوشگوار بھی نہیں رہتی۔سوشل میڈیا پر تو مخالف موقف رکھنے والوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ سیاست میں تقسیم اب بہت گہری ہوچکی ہے۔ خاص طور پر کپتان نے جس طرح اپنے حامیوں کو جنون کا سبق پڑھا یا ہے اور سیاست کو حق و باطل کی جنگ بنا دیا ہے یہ بہت خطرناک ہے۔ اس کا اثر پورے سیاسی ماحول پر پڑا ہے ۔ لوگ اپنے سیاسی موقف کی سچائی ثابت کرنے کیلئے زیادہ جذباتی نظر آتے ہیں۔ ایسے افراد نے اپنے اوپر سیاسی حالات کو اس قدر طاری کر لیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے جنگی میدان میں ہمہ وقت اپنے سیاسی موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے چہرے بھی زرداری ،عمران خان، شہباز شریف، پرویزالٰہی کی شکلوں کے دکھائی دیتے ہوں۔ اپنے سیاسی دیوتا کی ہار جن کے لیے زندگی کا سب سے بڑا غم اور اپنے سیاسی دیوتا کی جیت زندگی کی سب سے بڑی فتح بن جاتی ہے۔سیاستدانوں کی قلابازیوں اور سیاست کے میدان میں ہونے والے کلائمکس اور اینٹی کلائمکس کو ہرگز اجازت نہ دیں کہ آپ کا ذہنی سکون تباہ کردے۔ سیاست میں بظاہر ایک دوسرے کے دشمن دکھائی دینے والے اندر سے ایک دوسرے کے بھائی بند ہیں۔یہ اشرافیہ کا وہ طبقہ ہے جو ہر صورت میں اقتدار ہی میں رہتا ہے اگر یہ خود اقتدار میں نہیں ہوں گے تو ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ، بھائی ،بھتیجا چاچا، ماما اقتدار میں حصہ دار ہوگا۔سامنے ایک دوسرے کے خلاف نورا کشتی لڑنے والے پس منظر میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، ایک دوسرے کو فائدہ دینے والے ہیں۔اسد عمر اور محمد زبیر کی مثال سب کے سامنے ہے، سگے بھائی دو مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ ہیں۔چوہدری شجاعت حسین اور پرویزالٰہی کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی دراڑ پڑ گئی ہے ؟ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سب سیاست ہے اور اس تمام کار سیاست کا حاصل حصول اپنے مفادات کی سودے بازی ہوتا ہے۔میں اور آپ ان کی بظاہر اس لڑائی سے بے وقوف بننا چاہیں تو ہماری مرضی ۔ ویسے یہ سب اندر سے ایک ہی ہیں۔ پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے والے کے لیے اب پی ٹی آئی کے لوگ حمایت میں اترے ہوئے ہیں۔ یہ سب قلابازیاں سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کو بھی لگانی پڑتی ہیں۔ تو میرے پاکستانیو اس سیاست کے پیچھے دوستوں، رشتہ داروں کے ساتھ اپنے معاملات خراب نہ کریں۔ نہ ہی سیاسی حالات کو اپنے سروں پر اتنا سوار کر لیں کہ چوبیس گھنٹے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کی حمایت میں پوسٹ در پوسٹ جواب در جواب میں الجھ کر اپنے ذہنی سکون کو داو پر لگا دیں اور نتیجتا شوگر، بلڈ پریشر اور ہائپر ٹینشن کے مریض بن جائیں۔سیاست کو بس سیاست ہی سمجھیں۔ یہاں سیاست کے بازار میں ہر قسم کی بے اصولی، مفاد پرستی اور دھینگا مشتی جائز سمجھتی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر یہ بے اصولی دھینگا مشتی ہم کریں گے تو پھر یہ عین عبادت ہے لیکن اگر یہی بد اصولی مخالف فریق سے سر زد ہو تو یہ یہ ناقابلِ قبول ہوگا۔عدالت کا فیصلہ ہمارے حق میں آ جائے تو عدالتیں انصاف کے اعلی معیار قائم کر رہی ہیں اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہ آئے تو پھر ان عدالتوں پر چڑھ دوڑنا ہمارا حق ہوگا۔سیاست ساری کی ساری اس شعر کے اوپر کھڑی ہے کہ: تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے ہمارے سیاستدانوں نے اقتدار اور اختیار کے لالچ میں ایسی مثالیں قائم کی ہیں جس پر اصول، قانون اور اخلاقیات شرمندہ ہو جائے ۔مجھے سب سے زیادہ افسوس پرویزالٰہی پر ہوتا ہے عمر کے جس حصہ میں ہیں اور کتنی سیاست کر لیں گے۔بطور پاکستان پنجاب کے وزیر اعلی وہ سیاست میں اپنی زندگی کی بہترین اننگز کھیل چکے ہیں۔اور سچ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلی کی حیثیت سے اچھی نیک نامی کمائی تھی۔ مشرف دور میں 1122 کا آغاز کیا تھا اور اس کا ایک شاندار ڈھانچہ بنایا آج آپ اتنے برسوں کے بعد بھی یہ سروس۔ مصیبت میں پھنسے بیمار لاچار ہاتھوں کا شکار ہونے والے عام پاکستانیوں کی خدمت میں بلا تفریق مصروف ہے۔پھر بڑے چودھری صاحب ہمیشہ سے سیاست میں ایک وضع دار اور زیرک سیاستدان کے طور پر نیک نام رہے ہیں۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کو اس سیاسی سرپرائزڈ موو سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کو ایک دفعہ پنجاب میں حکومت بنانے دیتے۔پھر جو سیاسی سیٹ اپ بنتا اس نے بھی سموتھلی نہیں چلنا تھا بالآخر حالات عام انتخابات کی طرف جانے ہی تھے سیاسی تبدیلی تو آ کے رہنی تھی مگر اس طرح شاید وہ اپنے امیج کو بچا لیتے۔لیکن اس موقع پر مجھے ان کا ٹویٹ یاد آتا ہے ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ تیس سال ہمارا اداروں سے ایک تعلق رہا ہے اب کیسے اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت کر سکتا ہوں۔ یہ معنی خیز ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے بڑے چودھری صاحب نے جو سرپرائز دیا اس کا اشارہ کہیں اور سے آیا تھا۔ بہرحال دیکھتے رہیے کلائمکس اور اینٹی کلائمکس سے بھرپور سیاسی لونگ پلے ابھی جاری ہے۔