تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کا 10 اپریل 2022 ء کو خاتمہ ہوا اس دوران دو سال کورونا کی وبا کے باوجود حکومت نے تمام تر دباؤ کے باوجود مکمل شٹر ڈاؤن نہیں کیا اور معیشت کو مکمل تباہی سے بچا لیا اور بعد میں پوری دنیا نے کورونا کے ساتھ بہتر انداز میں نمٹنے پر سراہا جو لوگ ملک میں معاشی بحران کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالتے ہیں وہ اکنامک سروے _22 _2021 کی رپورٹ کا مطالعہ کریں جو پی ڈی ایم حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیش کی تھی "وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح ہدف سے زیادہ چھ فیصد رہی ہے اس کی وجہ زراعت میں 4.4 فیصد، صنعتوں میں 7.19 فیصد اور سروس سیکڑ میں 6.19 فیصد کی گروتھ تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کا کریڈٹ تحریک انصاف کی حکومت کو جاتا ہے کیونکہ یہ اعدادوشمار ان کے دور حکومت کے مالی سال کے آئینہ دار ہیں "اکنامک سروے کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صنعتوں کو مراعات فراہم کرنے کی وجہ سے اشیا کی برآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔ برآمدات کا حجم 23.7 ارب ڈالرز رہا ٹیکسوں کی وصولی میں 28.5 فیصد اضافہ ہوا اور شرح غربت 6.3 فیصد رہی اگست 2021ء میں زرمبادلہ کے ذخائر 27 ارب ڈالرز تھے جو پی ڈی ایم کی حکومت کے دو ماہ کے بعد 16.5 ارب ڈالرز ہو گئے اور اگلے 14 ماہ میں چار ارب ڈالرز پر چلے گئے جو چین اور سعودیہ سے ادھار لے کر سٹیٹ بینک میں رکھے گئے تھے۔ ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور یہ 31 بلین ڈالرز کی سطح پر پہنچ گئیں جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آغاز ہوا تو ڈالر 160 روپے پر تھا مگر جب عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہوا تو 186 روپے پر پہنچ گیا تو پھر تجربہ کاروں کی حکومت میں 330 روپے پر جا پہنچا مگر پھر نگران حکومت میں فوجی ایکشن سے کرنسی کی سٹہ بازی اور افغانستان سمگلنگ کنٹرول کرنے پر یہ کم ہو کر 280 روپے پر آیا۔ عمران خان کے دور میں پٹرول 118 روپے لیٹر تھا تو مریم وزیراعظم کو چور کہتی تھی آج پٹرول 294 روپے لیٹر ہے جو چند دنوں میں 350 روپے لیٹر پر پہنچ جائے گا مگر وزیراعظم کا کیا قصور ہے؟ مصدق ملک روس سے سستا پٹرول منگوا رہے تھے وہ ڈرامہ بازی کدھر گئی عمران خان جب رخصت ہوا تو چینی 86 روپے کلو بیس کلو آٹا 770 روپے دودھ 117 روپے لیٹر اور چکن 267 روپے کلو تھا بجلی کا یونٹ 17 روپے کا تھا روٹی دس روپے کی تھی۔ روٹی سستی کرانے کے چکر میں بزدار ٹو جاب ان ٹریننگ نے راولپنڈی میں 6000 ہزار تنور بند کرا دیئے ہیں۔ اب مزدور لوگ روٹی تنوروں سے خریدنے سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں تو تنور غیر معینہ مدت کے لیے بند ہیں دوسرے شہروں کے متعلق علم نہیں۔ ملک پر فوجی ڈکٹیٹرز نے 34 سال حکومت کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے وفاقی ادوار اور صوبائی ادوار کو بھی شاملِ کریں تو ان دونوں جماعتوں نے 36 سال سے زائد عرصہ اقتدار میں گزارا۔ پیپلزپارٹی میں تو بھٹو خاندان سے باہر بھی لوگ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم رہے مگر مسلم لیگ ن میں شاہد خاقان عباسی کے ایک ڈیڑھ سال کی وزارت عظمی کے علاوہ مرکز اور پنجاب میں وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ شریف خاندان کے پاس ہی رہی ۔دونوں تجربہ کار پارٹیوں نے ملک کی معیشت کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی نہ مانے تو کیا کہا جا سکتا ہے ایشیا ئی ترقیاتی بنک کے مطابق آج (ان 70 سالہ تجربہ کار حکمرانوں) کے عہد میں مہنگائی کی شرح دنیا کے 46 ممالک میں سب سے بلند سطح پر ہے اس وقت پاکستان میں چالیس فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اس سال چلیں جائیں گے۔ غذائی قلت کی وجہ سے 75 فیصد لوگ بمشکل ایک وقت کا کھاناکھا رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں کنزیومر پرائس انڈکس پر مہنگائی کی شرح 29.5 فیصد ہے اور غذائی اشیاء کی شرح 50 فیصد ہے اور عام لوگوں کی آمدنی کا 75 فیصد کھانے پینے اور نقل و حمل پر خرچ ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو پاکستان پتہ چلتا ہے پاکستان اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دوچار ملک ہے۔ پاکستان کے 43 اضلاع شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انسانی ترقی کے انڈکس کے مطابق پاکستان کم انسانی درجہ بندی کے لحاظ سے 164 نمبر پر دنیا کا غریب ترین ملک بن چکا ہے۔ درجہ بندی کے لحاظ سے یہ زمبابوے اور ہیٹی سے بھی کم سہولیات اپنے عوام کو فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کو ڈبونے میں ان تجربہ کار حکمرانوں کے آئی پی پی از اور نقل و حمل کے پراجیکٹس ہیں جن کے مالکان ان کے فرنٹ مین ہیں۔ 560 ارب کی بجلی چوری اور پانچ ہزار پانچ سو کے گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈال کر عوام کو خوشحالی کی نوید سنائی دی جا رہی ہے۔ 17 روپے کا بجلی کا یونٹ 62 روپے اور گیس کا ایک چولہا جلانے پر 15 ہزار کا بل غریب آدمی کے لیے بم شیل نہیں تو کیا ہے؟ جب آپ توانائی، اور نقل و حمل کے پراجیکٹس لگاتے ہیں تو کک بیکس لے کر اس کی آمدنی سے قرض اور سود نہیں دے پاتے ہیں تو بہتر ہے عوام کو ایسی سہولتیں نہ دیں۔ 65 ارب ڈالرز کا سی پیک گلے پڑھ گیا ہے اس پر دو سو ملین ڈالرز کا سود اور چینی قرضوں کا مہنگے ریٹ پر 35 ارب ڈالرز کے شارٹ ٹرم قرضے کہاں سے اتارنے ہیں؟ اسحاق ڈار نے ایک ارب ڈالرز کے ساڑھے سات فیصد شرح سود پر جو بانڈز فلوٹ کئے تھے ان کی ایک ارب ڈالرز کی ادائیگییاں خوش قسمتیسیہو گئی ہیں۔پانچ سو ارب روپے پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو بھی نواز شریف کے دور اقتدار میں دئیے گئے تھے مگر گردشی قرضے شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج جسے آپ یوتھیا کہہ کر تمسخر آڑاتے ہیں وہ شرکت اقتدار سے کم قیمت پر راضی نہیں ہے۔ جیل میں بیھٹا قیدی بھی بڑا ڈھیٹ ہے وہ نوجوانوں کو سقراط کی طرح اپنے قول و فعل سے شعور اور گیان تقسیم کر نے سے باز نہیں آئے گا چاہے اس کی جان چلی جائے کیونکہ وہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے ہر تکلیف خندہ پیشانی سے برداشت کر نے پر تلا ہوا ہے یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہے لگا دو ڈر کیسا جیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی تو بازی مات نہیں