وہ اندازے غلط ثابت ہوئے کہ افغانستان میںہمارے ہمدرد افغان طالبان برسرِاقتدار آئیں گے تو افغان زمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن امریکہ اور بھارت کی دوست اشرف غنی حکومت جانے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ دہشت گردوںکی رسائی اور صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مصروف علاقہ میں پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ لاہور میں بم دھماکہ کیا۔ نوشکی‘ پنجگور اورضلع کرم میں سکیورٹی فورسز پر حملے کرکے کئی افسروں اور جوانوں کو شہید کردیا۔اس وقت ہمارے ملک کی سلامتی کوبھارت سے نہیںبلکہ افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے۔یہ دہشت گردی ملکی معیشت کوسخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ بدامنی کے ماحول میں دنیا کا کوئی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ نہیں کرے گا۔ یہی پاکستان کے دشمنوں کی منشا ہے۔ پاکستان میں عام خیال تھا کہ کابل میں اشرف غنی کی انتظامیہ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کا بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ امریکہ کی مدد سے قائم افغان حکومت نے بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ وہاں سے بیٹھ کر بھارتی اور چند دیگرغیر ملکی ایجنسیاںپاکستان مخالف عناصر جیسے ٹی ٹی پی اور علیحدگی پسند مسلح بلوچ گروہوں کو مالی مدد فراہم کررہی ہیں‘ دہشت گردی کرنے کی غرض سے تربیت اور اسلحہ دے رہی ہیںتاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ہماری معیشت کو مفلوج کیا جائے۔ کہا جاتا تھا کہ پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان الگ الگ گروپ ہیں ۔ افغان طالبان کا پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میںکوئی حصّہ نہیں۔ان کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔خوش اُمیدی تھی کہ جب افغان طالبان فتح مند ہوں گے وہ افغانستان سے انڈیا کا اثرورسوخ ختم کردیں گے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کے افغانستان میں ٹھکانے ختم ہوجائیں گے۔ پاکستان میں امن و امان قائم ہوجائے گا۔ افغان طالبان کے بارے میں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی موجودرہا ہے۔اس طبقۂ فکر کی رائے میں افغان طالبان بنیادی طور پر انتہا پسند نظریات میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نظریات القاعدہ کے اکابرین سے متاثر ہیں۔یہ نہ صرف افغانستان میں مذہب کی اپنی تعبیر کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں بلکہ اپنے نظریہ کو ہمسایہ ممالک اور دنیا بھر میں فروغ دینا چاہتے ہیں۔ پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان ایک تنظیم کی دو شاخیں ہیں۔ ٹی ٹی پی کے رہنما اور کارکن بھی افغان طالبان کے امیر کی بیعت کرتے ہیں۔ انہی کے نظریات سے رہنمائی لیتے ہیں۔ افغان طالبان کی ٹی ٹی پی سے نہ صرف نظریاتی ہم آہنگی ہے بلکہ گہرے قبائلی‘ نسلی ‘ لسانی رشتے ہیں۔ٹی ٹی پی کا مشن پاکستان میںاپنی من پسند شریعت پر مبنی سیاسی نظام قائم کرنا ہے۔ پہلے مرحلہ میں وہ خیبر پختونخوا کے افغانستان سے ملحق قبائلی اضلاع میںاپنے نظریہ کے مطابق امارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان نے آج تک ٹی ٹی پی کی مذمت نہیںکی ۔کارکنوں کی سطح پر دونوں کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ اگر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کی کوشش کی تو اسکے کارکن اپنی قیادت کے خلاف ہوجائیں گے۔ گزشتہ برس ارکان پارلیمان کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے بند کمرہ میں سلامتی کے امور پر بریفنگ دی تھی۔ ارکان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چیف نے واضح طور پر کہا تھا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں۔ افغان طالبان نے پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کروائے جو اس لیے ناکام ہوگئے کہ ٹی ٹی پی ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں ۔نہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے پاکستان سے ملحق افغان علاقوں میں قائم ہیں۔ پاکستان میں کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہ کھلے عام یا غیر اعلانیہ طور پر افغان طالبان اور ٹی ٹی پی سے منسلک ہیں ۔ ان کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ ٹی ٹی پی کے کارندوں کو ہمارے ملک کے اندر سہولت کار میسر ہیں۔ حالات سے واضح ہے کہ پاکستانی ریاست کے خلاف برسر پیکار شدت پسند گروہ افغانستان میں پناہ گزین ہیں ۔اگلے روز اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہاگیا کہ افغان طالبان کے دور ِاقتدار میں دہشت گرد گروہ پہلے کی نسبت زیادہ آزادی سے کام کررہے ہیں اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ طالبان نے بیرونی شدت پسندوں کی کارروائیوں کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے ہوں۔ گزشتہ ہفتہ پے درپے دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد پاک فوج کے ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں نے کرم میں پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی۔ پاک فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے افغان زمین کو استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ افغان عبوری حکومت مستقبل میں پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں دے گی۔تاہم افغان طالبان نے پاک آرمی کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے حملوں میں افغان زمین استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز پربلوچستان نوشکی‘ پنجگور اورضلع کرم میںہونے والے حملوں میں بہت ماہر تربیت یافتہ مسلح افراد نے حصہ لیا اور جدید ہتھیار استعمال کیے۔ یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکی افغانستان میں چھوڑ کر گئے اور جو افغانستان کی بھگوڑا فوج کے استعمال میں تھا۔بلوچستان میں جن لوگوں نے حملے کیے ان کی تربیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی سکیورٹی ایجنسی یا فوج نے تربیت مہیا کی۔ پیسہ اور تربیت خواہ بھارت دے یا کوئی اور بیرونی طاقت لیکن دہشت گردی کرنے والے مقامی باشندے ہیں۔ وہ استعمال ہونا چاہتے ہیں تو کوئی طاقت انہیں استعمال کررہی ہے۔ کوئی گروہ پاکستان میں اپنی مرضی کا شرعی انقلاب لانا چاہتا ہے اور کوئی بلوچستان کو آزاد ملک بنانا چاہتا ہے۔پاکستانی ریاست کے خلاف ٹی ٹی پی ‘ داعش‘ القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروہوں کا غیر اعلانیہ اتحاد ہے۔ افغانستان ان گروہوں کا مرکز ہے۔پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ ہماری بقا کا تقاضا ہے کہ قوم اور ریاست یکسو ہو کر یہ جنگ لڑے۔ صرف بیرونی طاقتوں کو الزام دے کر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہماری فورسز کے پاس جدید ترین جنگی طیارے‘ ڈرون طیارے‘ جنگی ہیلی کاپٹر اور جاسوسی آلات موجود ہیں۔ اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ بھی حاصل کریں۔ریاست کے دشمنوں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کریں۔ یہ تئیس کروڑ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو یہ جنگ جیتنی ہوگی۔