پشین میں سیاسی جماعت کے دفتر کے باہر بم دھماکے میں درجنوں افراد جاں بحق و زخمی ہوئے ہیں، بہت دکھ اور صدمہ ہوا ہے، لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ملک بھر میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ملک میں مجموعی طور تعداد ووٹز کی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے ، مرد ووٹرز کی شرح 53.87 فیصد جبکہ خواتین ووٹرز کی شرح 46.13 فیصد ہے۔ ووٹ ایک مقدس امانت ہے جس کا استعمال گزشتہ روز قوم نے کیا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے ہرممکن قدم اٹھاگئے ، انتخابات میں یہ فیصلہ عوام نے کرناہے کہ پاکستان کی قیادت کس جماعت کے حوالے کی جائے۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا رسمی بیان اپنی جگہ درست مگر افسوس کہ ان کا نام ان نگران وزرائے اعظموں میں نہیں آئے گا جو الیکشن کے دن تک غیر جانبدار رہے ۔ الیکشن مہم کے لیے اشتہارات اور دیگر تحریری مواد کی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر پر بھی پابندی عائدکی گئی تھی مگر یہ بھی صرف زبانی حد تک ہوا باقی سب کچھ چلتا رہا۔ حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کے موقع پر انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا مگر کل پورے ملک میں انٹرنیٹ کے ساتھ فون سروس بھی معطل رہی اس بات پر ملک بھر کے نوجوان اس خدشے کا اظہار کر تے رہے ہیں کہ یہ بندش انتخابات پر اثرانداز ہونے کا ایک ہتھیار ہے۔ ملک کے چار انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی اموات کے باعث پولنگ ملتوی کردی گئی ،پی کے 91 کوہاٹ 2 سے امیدوار عصمت اللہ خٹک کے انتقال کے سبب پولنگ ملتوی کی گئی ، اس کے علاوہ این اے 8 باجوڑ، پی کے 22 باجوڑ 4 میں امیدوار ریحان زیب کی موت پر پولنگ نہیں ہوئی،پی پی 266 رحیم یارخان 12 میں امیدوار اسرار حسین کے انتقال پربھی پولنگ نہیں ہوئی،الیکشن کمیشن کے مطابق متعلقہ حلقوں میں الیکشن عام انتخابات کے بعد ہوں گے اور ان حلقوں کے شیڈول کا اعلان بعد میں ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ کل کے الیکشن میں پولنگ اسٹیشنوں پر کتنے ووٹرز آئے گزشتہ الیکشن میں شرح تقریباً 50 فیصد یا اس سے کچھ زائد رہی۔ پچھلے دنوں موسم سرما کی شدت رہی ، سردیوں کے دن ہیں مگر اب دو دنوں سے دھوپ نکل رہی ہے ، بارشوں کا بھی سلسلہ رہا ۔ سرائیکی وسیب کے لیے تو موسم خشک رہاجبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں ملا جلا موسم تھا، تاہم خطہ پوٹھوہار خصوصاً اسلام آباد کے بارے میں پوٹھوہاری کہاوت مشہور ہے کہ ’’ زمین ہموار نئیں، درخت پھلدار نئیں، موسم دا اعتبار نئیں تے بندے وفادار نئیں‘‘۔ امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا کہ عام انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں 16 ہزار 766 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس اور 29 ہزار 985 کو حساس قرار دیا گیا،حکام کے مطابق پولنگ اسٹیشن پر امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے پریزائیڈنگ افسران کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات دیے گئے ۔ عام انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے لاہور سمیت صوبہ کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے دستے تعینات رہے ، صوبائی منڈی بہاء الدین ، چکوال ، جہلم، سرگودھا، جھنگ، فیصل آباد، ملتان اور دیگر اضلاع میں فوج تعینات تھی ، امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا پہلی لیئر پولیس کی دوسری لیئر رینجرز جبکہ تیسری لیئر میں پاک فوجکی تھی۔ پولنگ اسٹیشنوں پر سیاسی کارکنوں کے درمیان پر گڑ بڑ ہوتی رہی ۔ پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات عملہ بھی غیر جانبدار نہیں تھا، اس پہلو کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ملتان میں عام انتخابات کے سلسلے میں الیکشن ڈیوٹی سے غیر حاضر ہونے پر 30 اساتذہ کو معطل کئے گئے اور ان کی جگہ نئے اساتذہ تعینات کر دئیے گئے اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ اساتذہ ڈیوٹی پر کیوں نہیں پہنچے۔ یہ الیکشن بھی کیسا الیکشن تھا ، صورت حال اب بھی ویسی ہی ہے، مہنگائی اور نا انصافی کے مارے ہوئے لوگوں کا انتخابی سسٹم سے اعتماد اُٹھ چکا ہے، خصوصاً جب کوئی الیکشن فکس ہو جاتا ہے اور پیشگی شہ سرخیوں کے ساتھ وزیر اعظم کا رسمی اعلان بھی ہو جاتا ہے تو پھر ووٹر سسٹم پر اعتماد کیونکر کر گا اور سیاسی جماعتوں کے کارکن جب ایک دوسرے کو وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کے ناموں کے بارے میں بتانے لگ جائیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ الیکشن کی باتیں صرف پنجاب میں نہیں ہوتیں یہ دوسرے صوبوں میں بھی ہو تی ہیں ۔ اگر ملک کی سربراہی کسی ایسی جماعت کو ملے جس کا تین صوبوں میں نام و نشان تک نہ ہو تو پھر دیگر صوبوں کے عوام میں احساس محرومی کو کون روک سکے گا؟ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ میرے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالا گیا تو ایسا پیچھا کروں گا کہ وہ عمران خان کو بھول جائیں گے ، بلاول کو یہ یاد دلاتے چلیں کہ ووٹ ہمیشہ سے چوری ہوتا آ رہا ہے اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ والوں نے بھی کبھی ووٹ کو عزت نہیں دلوائی، یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ ہے، جو طاقتور ہے ، وہ سب کچھ لے جاتا ہے ۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم کرسی اور مفادات کے لیے سیاست نہیں کرتے بلکہ اسے انبیا ء کی سنت سمجھ کر کرتے ہیں۔ مولوی صاحبان اپنی ہر بے وزن بات کو وزن دار بنانے کیلئے مذہب کا نام شامل کرتے ہیں، اب اگر مولانا نے کہا ہے تو پھر ان کو یہ ثابت بھی کرنا پڑے گا کہ موجودہ انتخابی سسٹم جو انگریز نے دیا ہے کرسی اور مفادات کا نہیں ہے۔