برف کے گالے دھیرے دھیرے گھومتے، بل کھاتے ،چکراتے نیچے اترتے۔پیڑوں سے، عمارتوں سے یا زمین سے اتنے شرمیلے پن سے گلے لگتے کہ آواز تک نہ ہوتی۔بارش ہو یا اولے۔زمین پر آتے ہیں تو آتے ہی آواز کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں، لیکن برف کے گالے ایک متبسم مگر خاموش ساتھی کی طرح زمینی محفل میں شامل ہوتے ہیں۔وہ جو اقبال نے اپنے لطیف اور پُر جمال پیرائے میں کہا ہے نا مانندِ سحر صحن گلستان میں قدم رکھ آئے تہِ پا گوہر شبنم، تو نہ ٹوٹے تو بس یہ رمز برف کے گالے جانتے ہیں کہ زمین پر نازل کس طرح ہونا ہے۔وہ ما نندِ سحر زمین پر اترتے ہیں اور زمین ،شجر ،حجرگاڑیاں اور عمارتیں رفتہ رفتہ اپنے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ امریکہ کی ریاست اوہائیو کے شہر سنسناٹی (Cincinnati) میں 15 نومبر کی سہ پہر موسم کی پہلی برف باری ہوئی تو ہم اس کے عینی ناظرین میں سے تھے۔سنسناٹی امریکہ کے بڑے شہروں میں تو نہیں آتا لیکن یہاں کچھ انڈسٹریز بہت اہم ہیں۔ایوی ایشن انڈسٹری میں جنرل موٹرز سمیت ہوائی جہازوں کے انجن بنانے کی کئی فیکٹریاں اسی ریاست سے متعلق ہیں۔میرے لیے سنسناٹی اس لیے اہم ہے کہ عزیز دوست علی مینائی یہاں رہتے ہیں۔مشہور شاعر جناب امیر مینائی کے خانوادے کا علی مینائی اپنے شغف ِعلم ،سخن وری اور سخن شناسی کی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔16 نومبر جمعے کے دن سنسناٹی میں سالانہ مشاعرہ ہوا ۔بہت محبتیں سمیٹیں ۔بہت کامیاب اور بہت خوشگوار محفل تھی اور ایسی محفلیں دل و دماغ کو تا دیر بالیدہ رکھتی ہیں ۔ اس کے علاوہ مشاعرہ نئے پرانے دوستوں سے ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتا ہے سو یہاں بھی یہ خواہش پوری ہوئی ۔ امریکہ میں شہر در شہر گھومنے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملاقاتوں کا موقعہ مل رہا ہے تو میں اپنے ذہن میں برسوں سے موجود کچھ سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں۔یہ سوال کیا ہیں اور ان کے تسلی بخش جواب مل سکے یا نہیں؟ یہ موضوع بذات خود ایک مکمل کالم کا متقاضی ہے اور ابھی سفر بھی جاری ہے۔لہٰذا ان شاء اللہ اختتام پر سہی ۔ہم نیویارک،کلیو لینڈ، شکاگو، برمنگھم، جیکسن ول،ڈیلس اورواشنگٹن کا دانہ پانی چکھنے کے بعد سنسناٹی پہنچے ہیں اور ابھی ان شاء اللہ اٹلانٹا، ہیوسٹن،سالٹ لیک سٹی اور لاس اینجلس کا رزق چکھنا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ دنیا بھر کے شہروں سے ملنا تو گویا چہروں سے ملنا ہے۔ہر شہر کا اپنا چہرہ اپنے خد وخال ہوتے ہیں۔ بہت سی مماثلتیں، بہت سے نقش ایک جیسے ہونے کے باوجود ہر چہرا جدا پہچانا جاتا ہے۔ڈیلس مجھے ایک اداس شہر لگا۔بہت رونق ،گہما گہمی اور سجے سجائے بازار اپنی جگہ لیکن شہر کی اداسی اور تنہائی اپنی جگہ۔مجھے لگا کہ شاید یہ اندر کا موسم نکل کر باہر آگیا ہے لیکن ہم سفروں سے ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس تاثر کی تصدیق کی۔ ڈیلس عام طور پر سرد نہیں ہوتا لیکن ان دنوں سردی کی لہر نے اسے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ہم پلانو ( Plano) کے علاقے میں لیگیسی ویسٹ ((Legacy Westکے خوب صورت اور پر رونق بازار کے قریب مقیم تھے۔کرسمس کی آمد آمد ہے اور اس بازار میں رات بھر درختوں کو سفید قمقمے برّاق بنائے رکھتے ہیں۔ہما ہمی،خوب صورتی اور بکھرا ہوا حسن ہر طرف لیکن ۔ لیکن میری کیفیت عجب ہے اک درد ہے اور بے سبب ہے جی درد سے بھر گیا ہو جیسے شیشہ سا بکھر گیا ہو جیسے اس کیفیت کو واشنگٹن ڈی سی نے دور کیا۔واشنگٹن ڈی سی ۔ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کا طاقت ور ترین شہر ۔جہاں افراد ،اقوام اور ملکوں کی قسمتوں اور جغرافیوں کے فیصلے ہوا کرتے ہیں اور جس کے پرسکون ماحول کے نیچے طوفان بپا رہتے ہیں ۔ ڈی سی میںہمارے مقامی میزبان ڈاکٹر عبداللہ جو ہمارے مرکزی میزبان بھی ہیں ،اپنی روایتی محبت اور شگفتہ مزاجی کے ساتھ مسلسل ساتھ رہے ۔عبداللہ بھائی،ان کی خصوصیات اور ان کی اردو کے لیے خدمات پر ایک مستقل کالم کی ضرورت ہے۔وہ 44 سال سے اردو اور مشاعروں کی یہ شمع اپنے ساتھیوں کے ساتھ جلائے ہوئے ہیں جو یہاں رہتے ہوئے آسان کام نہیں ہے۔یہ خدمات تو مقالے کا موضوع ہیں۔شاید کوئی کبھی اس طرف نظر کرے ۔ عبد اللہ بھائی کے وسیع گھر کا پچھلا لان جنگل سے جا ملتا ہے۔جہاں ہرن بھی رہتے ہیں اور بے تکلفی سے ان کے گھر آتے جاتے ہیں۔عبداللہ بھائی کو شکایت ہے کہ ہرن ان کے لگائے پھول اور سبزیاں چٹ کرجاتے ہیں۔ہرنوں کا اس سلسلے میں مؤقف کیا ہے، معلوم نہیں ہوسکا ۔وقت کی کمی آڑے آئی۔لیکن بھئی دو قریبی ہمسایوں کے باہمی تنازعے میں ہم کیوں پڑیں۔ہم دو دن کے مہمان اور یہ مستقل مکین۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک ہی زمین کو پرندوں ، جانوروں اور خدا کی دیگر مخلوق کیساتھ مل جل کر ساتھ گزارنے کا یہ طریقہ کتنا خوبصورت اور آسودگی بخش ہے ۔ علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن نے مشاعرے کے نہایت عمدہ انتظامات کر رکھے تھے لہٰذا مشاعرہ بھی بہت اچھا رہا۔سامعین کی بھرپور شرکت،شعراء کی منتخب شاعری ،وقت کی درست تقسیم اور ڈاکٹر عبداللہ کی بہت اچھی نظامت نے اسے ایک یادگار محفل کی حیثیت دے دی اور ان کے بپا کیے ہوئے مشاعروں کا ہمیشہ سے یہی ریکارڈ چلا آتا ہے۔ واشنگٹن میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔خاموش ،سرد اور تیز رو، دریائے پوٹومک،لنکنز میموریل،واشنگٹن مانومنٹ،پارلیمنٹ ہاؤس،وائٹ ہاؤس ،نیشنل مال پر دو رویہ کھڑے پرانے بیش قیمت عجائب گھر جن میں سے ہر ایک کو دیکھنے کے لیے پورا دن بھی کم ہے۔اور جدید تر سیاہ فام میوزیم جسے بنانے کے لیے مالدار سیاہ فام امریکیوں نے بلینک چیک صدر اوباما کو پیش کردیئے تھے اور جسے بننے سے روکنے میں چمڑی کے رنگ کا تعصب پیش پیش تھا۔سیاہ فام صدر کے دور حکومت میں یہ میوزیم بنا جو سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ پر مشتمل ہے ۔ لنکنز میموریل کے پاس ہی کوریا جنگ کی یادگار بھی ہے اور وہ سیاہ دیواربھی جس پر ویت نام میں مرنے والے 58220 امریکیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر عبداللہ نے وہ واقعہ سنایا کہ کس طرح وہ احمد فراز کو واشنگٹن قیام کے دوران یہ دیوار دکھانے لائے اور پھر فراز نے اس دیوار پر نظم لکھی جس میںاپنے عام اسلوب سے ہٹ کر فراز نے ہندی لفظ برتے ہیںجو ڈاکٹر عبد اللہ نے فراہم کیے۔ یادگاریں اور بھی ہیںلیکن لنکنز میموریل شاید وہ جگہ ہے جو ان سب جگہوں میں امریکہ کے لیے سب سے قابل فخر ہے۔ اور جس میں کسی اور قوم اور ملک کی آزادی سلب کرنے کی تاریخ شامل نہیں ہے ۔لنکنز میموریل ، واشنگٹن مانومنٹ اور کیپیٹل ایک سیدھ میں بنائے گئے ہیں۔ابراہیم لنکن کے کرسی پر بیٹھے بلند قامت مجسمے کو دیکھتے ہوئے میں اس کے کچھ قول یاد کر رہا تھا۔اور سوچ رہا تھا کہ پچھلے سو سال میں دنیا اور خود امریکہ نے یہ اقوال کس حد تک یاد رکھے ۔وہ اقوال جودراصل کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوںکے ہیں۔دل سے دل تک بات ایسے ہی نکلتی اور اترتی ہے ۔ Do i not destroy my enemies when i make them my friends? کیا میں اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد نہیں کردیتا ،جب میں ان کو دوست بنا لیتا ہوں ؟ Nearly all men can stand adversity,but if you want to test a man's charecter, give him power. تقریبا تمام لوگ مشکلات برداشت کرجاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کسی آدمی کا کردار دیکھنا ہو تو اسے طاقت دے دو۔