آج کل رمضان کے مبارک مہینے میں جگہ جگہ لوگ خیرات ،صدقات اور زکوۃ کے پیسے یا ان سے خریدی ہوئی چیزیں بانٹ رہے ہیں۔ بانٹنے کا انداز اس قدر عجیب رکھا جاتا ہے کہ دور دور کے لوگوں تک اس شخص کی سخاوت کی دھوم ہو جائے۔بہت سے بانٹنے والے باقاعدہ فوٹو سیشن بھی کرتے ہیں اور ان کی تصویر اخبار یا سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے کہ وہ غریبوں میں راشن بانٹ رہے ہیں۔زکوۃ تو جب آپ اپنے مال سے علیحدہ کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ یہ اﷲرب العزت کی امانت آپ کے پاس ہے۔ آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا ماسوائے اس کے کہ آپ نے اسے مستحقین تک پہنچانا ہے۔ لیکن اس کی تقسیم بھی اس انداز میں ہوتی ہے کہ لوگ زیر بار آئیں کہ آپ نے ان پر احسان عظیم کیا ہے۔لوگوں کو محسوس ہو کہ کسی حاتم طائی کے رشتہ دار سے کچھ لے کر آئے ہیں۔یہ طریقہ نہ تو اخلاقی طور پر صحیح ہے اور نہ ہی شرعی طور پر۔یہ صدقات اور خیرات تو آپ کی اپنی بھلائی اور خیروبرکت کے لئے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے ،’’ اﷲسود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے’‘۔یہ قانون فطرت ہے کہ صدقات سے جس میں قرض حسنہ بھی شامل ہے ، انسان کا اخلاق ،روحانیت، تمدن اور معیشت سمیت ہر چیز کو نشو و نما نصیب ہوتی ہے۔انسان کے اندر فیاضی، فراخ دلی، ہمدردی اور عالیٰ ظرفی جیسی صفات پرورش پاتی ہیں۔انسانوں کے درمیان پیار اور محبت کا رشتہ بہتر ہوتا ہے۔ ہم اپنی بہتری کے لئے اپنا سرمایہ، وقت اور صلاحیتیںخرچ کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ دوسروں کے لئے مستقل بنیادوں پر خرچ کرنے کا بھی ہمیں رب نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ مستقل بنیادوں پر کیا گیا ایسا کام صدقہ جاریہ کہلاتا ہے۔یہ ایک بہترین تصور ہے اور اس سلسلے میں صدقہ جاریہ کے بہترین طریقے کچھ اس طرح ہیں: 1 ۔ کسی یتیم کی پرورش کرنا۔ 2 ۔لوگوں کو تعلیم دینا یا دلوانا ، خصوصاً اسلام کی تعلیم سے روشناس کرانا۔ 3 ۔کنواں کھدوانا اور آج کے اس دور میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنا۔ 4 ۔کسی مسجد، سکول، ہسپتال اور دیگر عوامی فلاحی عمارات کی تعمیر میں حصہ لینا ۔ 5 ۔دینی کتابوں کو تقسیم کرنا، تاکہ لوگ بہتریں اخلاق سے روشناس ہوں۔ خیرات اور صدقات میں غیر مسلم بھی کچھ کم نہیں۔ یہ حقیقت شاید کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہماری ساری NGO,S جو غیر ممالک سے فنڈ لے کر ملک میں غریبوں کی فلاح کے لئے خرچ کرتی ہیں اس کے لئے رقم دنیا کے بہت سے کھرب پتی کاروباری حضرات فراہم کرتے ہیں جو زیادہ تر عیسائی اور یہوری ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی کاروباری آمدن کا ایک حصہ مستقل فلاحی کاموں اور تیسری دنیا کے پسماندہ عوام کے لئے وقف کیا ہوا ہے ، جس میں وہ کوئی کمی بھی نہیں کرتے اور کسی خاص فرقے یا قوم کے لئے اسے مخصوص بھی نہیں کرتے۔ ان کی دی ہوئی رقم دنیا کے سب انسانوں اور پوری انسانیت کے لئے بغیر کسی تعصب کے تقسیم ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کی بات چلی تو مجھے اس حوالے سے بھارت کا ایک واقعہ یاد آیا۔ 1996 کی بات ہے ۔ اغوا کرنے والے ایک گروہ نے نیپال سے 128 نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو اٹھایا اور زبردستی اغوا کرکے بھارت کے شہر بمبئی میںلے آئے۔ وہ ان عورتوں کو ایک ایسے گروہ کو بیچنا چاہتے تھے جو عورتوں سے جسم فروشی کا کام لیتا تھا۔ عورتون کے شور مچانے پر کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی اور پولیس نے ان لوگوں کو پکڑ کر عورتوں کو بازیاب کرا لیا۔ اب عورتیں آزاد تھیں مگر دیار غیر میں بے یارو مددگار۔ انہیں رہنے کے لئے وقتی طور پر جگہ، کھانے کے لئے کچھ لوازمات اور واپس جانے کے لئے سفری اخراجات کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں نیپال کی ایمبیسی سے رابطہ کیا مگر کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔اب وہ مزید پریشان تھیں کہ اپنے گھروں میں واپس کیسے جائیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نیکی کریں تو آپ نے اس نیکی کے لئے اگر اپنا دایاں ہاتھ استعمال کیا ہے تو اس نیکی کی خبر آپ کے بائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہونی چائیے۔ ان حالات میں ایسی ہی ایک سوچ رکھنے والے ایک مشہور بھارتی اداکار نے آگے بڑھ کر چپکے سے ان عورتوں کی مدد کی ۔ان کی وقتی رہائش کا بندوبست کیا، انہیں کھانا فراہم کیا اور پھر ان کی ان کے گھروں تک واپسی کا اہتمام کیا۔یہ بات چوبیس سال تک دنیا کو پتہ نہ چلی مگر 2020 میں ان عورتوں میں سے ایک نے ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں یہ بات بتاتے ہوتے اس اداکار کا نام بتا دیا۔ وہ نیکی اور بھلائی کا کام کرنے والا بھارت کا مشہور اداکار سنیل سیٹھی تھا۔62 سالہ سنیل سیٹھی ایک مشہور اداکار، ہدایتکار، ٹی وی کی معروف شخصیت اور کاروباری آدمی ہے۔اس نے1991 میں اداکاری کی ابتدا کی اور اب تک ہندی فلموں کے علاوہ تامل، تلگو،انگلش، مراٹھی اور بہت سی دیگر زبانوں کی فلموں میں کام کیا ہے ۔اس کے تیس سالہ فلمی کیریر میں اس کی فلموں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔وہ منگلور میں پیدا ہوا اور آج کل بمبئی میں ایک بہت بڑے کلب کا مالک ہے۔ بھلائی کے کاموں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔آ پکے پاس سرمایہ ہے ۔ آپ اس کا ایک مخصوص حصہ لوگوں پر خرچ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس سرمایہ نہیں تو بھی آپ کا خلق سے اچھا رویہ کسی خیرات سے کم نہیں ہوتا۔ پھر آپ کا وقت بھی آپ کا سرمایہ ہے ۔ اسے لوگوں پر خرچ کرنا بھی ایک بہت بڑا صدقہ ہے ۔ اپنے سرمائے، اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کے کام آئیں ۔ یقین مانیں وہ مسرت جو آپ کو کسی دوسرے کے کام آنے سے ملے گی ،اس کا کوئی بدل نہیں۔یہ آپ کو یہاں بھی سکون اور آرام دے گا اور رب العزت کی مہربانیوں اور عنایتوں کا حقدار بنائے گا۔لیکن اس کی غیر ضروری تشہیر آپ کی شخصیت کو ہلکا اور آپ کے ہر انعام کو بے معنی کر دے گی۔