الیکشن کمیشن ہر الیکشن سے پہلے ایک ضابطہ اخلاق جاری کرتا ہے جس میں امیدواروں کو الیکشن کے بارے بہت سی معقول اورکچھ بے ہنگم ملی جلی ہدایات ہوتی ہیں۔ ان میں معقول تو قابل عمل ہوتی ہیں اور کچھ بے ہنگم ا لیکشن کمیشن کو قابل معافی۔ الیکشن کے اخراجات کا ایک تخمینہ دیا جاتا ہے۔ جس سے کسی محلے کے اندر تو الیکشن لڑا جا سکتا ہے اور محلے سے باہر نکلیں تو بجٹ غائب۔اس دفعہ بھی ضابطے کا ایک حصہ جاری ہو چکا ہے، میں اس کا مطالعہ کر رہا تھا۔یہ بینر چھاپنے کے بارے ہدایات پر مشتمل تھا۔جس کے مطابق مقررہ سائز سے بڑے پوسٹر، پمفلٹ یا بینرز کی اجازت نہیں ہو گی۔پوسٹر کی لمبائی 18 انچ اور چوڑائی 23 انچ سے زیادہ نہیں ہو گی۔یہ بات تو سمجھ آ گئی کیونکہ 18X23 انچ کاغذ کا ایک خاص سائز ہے۔ پوسٹر کو اس کاغذ کی لمبائی اور چوڑائی تک محدود کیا گیا ہے۔ پوسٹر کے لئے یہ سائز بڑا معقول ہے۔ہینڈ بل ، پمفلٹ اور کتابچے 9انچ لمبے اور 6انچ چوڑے ہو سکتے ہیں چونکہ پمفلٹ کے صفحات پر کوئی پابندی نہیںاس لئے یہ جتنے صفحات پر بھی مشتمل ہو چل جائے گا مگر یہ عام طور پر ایک صفحے سے زیادہ نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو چار صفحات سے زیادہ کیا ہو گا۔ بینر کی لمبائی چوڑائی البتہ بہت خوبصورت رکھی گئی ہے۔ یہ وہ سائز ہے کہ عرصہ ہوا بینر بنانے والے بھی اس سائز میں بینر بنانا چھوڑ چکے مگر کیا کیا جائے ۔ بینر کا سائز جاری ہدایات کے مطابق3 فٹ لمبا اور 9 انچ چوڑا ہو گا۔ماشاء اﷲکس قدر خوبصورت سائز ہے ۔ بینر عام طور پر بڑی شاہرائوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اس سائز کا بینر کسی بھی شاہراہ پر لگا ایک چلتا پھرتا مذاق ہی ہو گا۔ پورٹریٹ تصویر 2فٹ لمبی اور 3 فٹ چوڑی ہو سکتی ہے۔ہر اشتہاری مواد پر پبلشر کا نام اور پتہ لکھنا لازمی ہے۔یہ بھی عجیب زبردستی ہے۔ لیکن اس پر عمل اگر واقع ہی ہو گیا تو قابل اعتراض اور مذہبی منافرت والا مواد چھپنے سے قدرے رک جائے گا۔ہورڈنگز،بل بورڈ، وال چاکنگ اور پینا فلیکس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔فلیکس کی مشینیں لوگوں نے کوئی دس سال پہلے لاکھوں میں خریدی تھیں۔ صرف ایک الیکشن کے بعد اس کی ڈیمانڈ اس قدر کم ہوئی کہ اب وہ مشینیں تول کے حساب سے دستیاب ہیں۔اس لئے کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں۔الیکشن مہم میںسرکاری اہلکار کی تصویر لگانا غیر قانونی ہو گا۔لیکن سرکاری اہلکار اگر بہ نفس نفیس اگر خود کسی جلسے میں قدم رنجہ فرمائے اور سیاسی پارٹی بھی کوئی چہیتی ہو تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔ ابھی دو یا تین دن پہلے کافی جگہوں پر ایک جماعت کے ممبروں نے سرکاری اہلکاروں کو اپنے جلسوں میں بلایا اور ان کی تصاویر میڈیا پر آئیں مگر الیکشن کمیشن کا کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔ کیونکہ ان کا اس جلسے میں آنا فقط اس پارٹی کے کارکنوں کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن کے اخراجات کے بارے بھی کچھ ہدایات آتی ہیں، مگر اس دفعہ کوئی نئی ہدایات آنے کی بجائے 2018ء میں دی گئی ہدایات ہی کو نافد کر دیا گیا ہے۔ ان ہدایات کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار اپنی الیکشن مہم پر کل چار ملین اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار اپنی الیکشن مہم پر کل دو ملین تک خرچ کر سکتا ہے۔الیکشن مہم کے لئے یہ رقم اس قدر معمولی ہے کہ اس سے بینر اور پوسٹر وغیرہ میں سے کوئی ایک چیز بھی پوری نہیں چھپوائی جا سکتی۔وہ لوگ جو الیکشن لڑتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں اور انہیں بڑی رقم خرچ کرکے بہت بڑی رقم واپس حاصل کرنا ہوتی ہے۔ الیکشن کے دن کا صرف ایک دن کا خرچ ہی صوبائی کے ممبرکا دو کروڑ کے لگ بھگ اور قومی والے کا چار کروڑ کے قریب ہوتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک قومی اسمبلی کے امیدوار جو آج ایک بڑی پارٹی کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں، نے اپنی الیکشن مہم پر اٹھارہ کروڑ خرچ کئے تھے اور کل چودہ سو ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ الیکشن کے دن آپ کو نوے فیصد ووٹروں کو ان کے گھر سے پولنگ سٹیشن تک ٹرانسپورٹ خود مہیا کرنا ہوتی ہے۔صرف ایک پولنگ سٹیشن کے لئے پندرہ سے پچیس گاڑیاں یا رکشے درکار ہوتے ہیں۔ اوسط کرایہ اگر دس ہزار بھی لگایا جائے تو یہ دو یا ڈھائی لاکھ کا خرچ ہو گا۔یہ ایک چیز کا خرچ ہے۔ خواتین پولنگ ایجنٹ ڈیوٹی دینے کا پانچ ہزار کے قریب لیتی ہیں۔ ووڑر چیلنج کرنے کے لئے ہر لفافے میں ہزار روپیہ فراہم کیا جاتا ہے جو کوئی چیلنج نہیں کرتا۔ پیسے سب جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا ایک اور مہنگی چیز ہے ۔ چھوٹے چھوٹے اور بہت سے اخراجات ہوتے ہیں جن کا شمار ہی نہیں۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ وہ بیس یا چالیس لاکھ جس کی الیکشن کمیشن اجازت دیتا ہے، اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔آج صحیح معنوں میں الیکشن لڑنے کو پچاس کروڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی شوق پورا کرنے کی تو کوئی قیمت نہیں۔ ہاں البتہ الیکشن کمیشن اگراپنے بتائے ہوئے اخراجات تک امیدواروں کو محدود کر دے تو ایک الیکشن بڑا روکھا پھیکا ہو گا،دوسرا ٹرن آوٹ نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ امیدوار نہ ٹرانسپور ٹ مہیا کرے گا نہ لوگ پولنگ سٹیشن پہنچیں گے۔ اس سے حکومت کے عزائم بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ عوام اپنا حق استعمال کرنے میں ناکام رہتی ہے اور ان کی غیر موجودگی میں سرکاری ملازم سرکار کی خوہشات کی تکمیل میں آزاد ہوتے ہیں۔آزاد الیکشن موجودہ قوتوں کے لئے کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے اور نہ ہی اتنے بارآور ثابت ہونگے۔ وہ جنہیں بہت سی امیدیں دلائی گئی ہیں ،ان کی امیدیں اسی صورت پوری ہونگی اگر الیکشن بہت پابند ہوں۔ الیکشمن کمیشن اپنی من مانیوں میں آزاد رہے تو جو کوئی لاڈلا ہو گا، اصل فائدہ اس کو ہو گا اور یوںجناب لاڈلے کو مبارک ہو، انہیں آنے سے کوئی روک نہ سکے گا۔