بزرگ بتا رہے تھے کہ جب لوہا ٹھنڈا تھا تو سبط حسن‘ فیض اور ان جیسے دیگر بڑے لوگ ضربیں لگایا کرتے‘ اب نوجوان لوہا گرم ہے لیکن کوئی ضرب لگانے والا نہیں۔میں نے لقمہ دیا کہ ہمارے اساتذہ کلاس کنفلیکٹ (طبقاتی جنگ) کی تھیوری پڑھایا کرتے۔اب نچلے طبقات پوری طرح مغلوب بنا لئے گئے ہیں اس لئے سماج میں بدامنی پھیل گئی ہے۔سماج بالائی اور نچلے طبقات کے ایک دوسرے کے لئے رضا کارانہ تعاون سے قائم رہتا ہے۔ہر طبقہ اپنی استعداد کا کچھ کمایا گیا منافع دوسرے طبقات کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ایسے معاشرہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رکھتا ہے۔ جب ایک طبقہ خود غرضی کی انتہا کو چھونے لگے تو باقی طبقات کے لئے گنجائش نہیں رہ جاتی۔پھر ان محروم طبقات کے نوجوانوں کے پاس یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ملک چھوڑ جائیں۔ پاکستان قائم ہوا تو ساحر لدھیانوی اپنی والدہ کے ساتھ لاہور آ گئے۔ حمید اختر صاحب بتایا کرتے تھے کہ ساحر کو سویرا میں اداریہ لکھنے کی نوکری مل گئی۔وہ پاکستان کے حکمرانوں کو یاد دلانے لگے کہ یہ ملک جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے نہیں بنا بلکہ عام مسلمان نے آزادی حاصل کی ہے۔حکومت غریب اکثریتی آبادی کا استحصال کرنے والوں کی مددگار نہ بنے۔اس یاد دہانی پر دولت مند سیاست دانوں نے اپنے اتحادی صحافی ان کے پیچھے لگا دیے۔حمید اختر صاحب ایک کانفرنس کے سلسلے میں کراچی گئے۔ وہاں انہیں ایک ہفتہ لگ گیا۔اس زمانے میں ٹیلی فون عام نہیں تھے۔بس خط سے رابطہ ہوتا۔لاہور کے ایک مشہور خطیب اور صحافی نے ساحر لدھیانوی کو بتایا کہ حکومت نے کچھ لوگوں کو ان کے قتل پر مامور کیا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ حمید اختر کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب ساحر کی خیر نہیں۔ساحر کو اس قدر خوفزدہ کر دیا گیا کہ وہ بھارت چلے گئے ۔حمید اختر صاحب ایک ہفتے بعد واپس آئے تو ساحر کی والدہ نے انہیں ساری بات بتائی۔انہوں نے ساحر کو لاہور آنے کا کہا لیکن وہ پھر کبھی پاکستان نہ آئے۔ یہ ایک واقعہ ہے جو آج بھی رونما ہو رہا ہے۔جو شخص ملک میں نچلے طبقات کی بات کرتا ہے‘اس کے نظریات کے متعلق پروپیگنڈہ کر کے اس کی سلامتی کے مسائل پیدا کر دیے جاتے ہیں۔کوئی ایک لمحہ رک کر یہ جاننے کی کوشش تک نہیں کرتا کہ زہر پھیلانے والے کون ہیں۔وہ کس استحصالی گروہ کے سماجی و سیاسی اتحادی ہیں۔ ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ سے بات ہوئی ۔وہ بھرے بیٹھے تھے ۔بولے :مذہبی سیاست عام طور پر مسلک کا دامن پکڑتی ہے۔ یوں ملک میں مسلکی بنیاد پر شناخت اور طاقت حاصل کرنے کا رواج فروغ پایا۔ان ہی جماعتوں کی قیادت کے نظر انداز کچھ لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لئے زیادہ شدت پسند موقف اختیار کرتے ہیں۔بھارت میں اسے سنگھ پریوار کا نام دیا گیا۔پاکستان میں عمومی طور پر دایاں بازو کہہ دیا جاتا ہے لیکن دائیں بازو کے سارے لوگ اس شدت پسندی میں مبتلا نہیں اس لئے یہ گروہ الگ سے شدت پسند پہچان رکھتے ہیں۔اگر کسی کو مسلکی شدت پسند گروہوں اور جماعتوں کی تاریخ سے دلچسپی ہو تو یاد دلاتا چلوں کہ کفر کے فتوئوں سے ملک ایک عرصہ تک میدان جنگ بنا رہا ہے۔ سائنٹسٹ کا کہنا ہے کہ سیکولر کی مذہبی تشریح لادین نہیں ہے ۔ اس کے سیاسی و سماجی پہلو کی ضرورت سے انکار نہیں۔ایک ایسا سماج جہاں لوگ اپنی پہچان مسلمان کی بجائے مسلک کی بنیاد پر کراتے ہوں وہاں سب کو ایک ایجنڈے پر لانے کے لئے اگر کوئی سیکولر کی اصطلاح کو مناسب نہیں سمجھتا تو ایسی کثیر المشربی دوسری اصطلاح لانے میں کیا حرج ہے لیکن سماج کے کچلے ہوئے طبقات کا مزید استحصال نہ کیا جائے۔ میں نے مزدور کسان تنظیموں‘ بھٹہ مزدوروں اور مزارعین کی انجمنوں سے بات کی ہے۔یہ سب لوگ مسلمان ہیں اس لئے دین میں تقسیم کا ایجنڈہ پہلے قدم پر مسترد کر کے پاکستانیوں کو طبقات کی بنیاد پر اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ کلاس کنفلیکٹ یا طبقاتی جنگ سرمایہ داری نظام اور مزدور کی لڑائی ہے۔اس جنگ میں سرمایہ دار مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے قابو میں کرتا ہے اور انہیں آئین و قانون کی بجائے حکمران اشرافیہ کی مرضی کے تحت کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔مقننہ سرمایہ داروں کے خلاف مقدمات کو نئی قانون سازی سے ختم کر دیتی ہے لیکن کچلے ہوئے طبقات عشروں تک عدالتوں کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔ سرمایہ دار طبقات اپنے ذرائع آمدن میں اضافہ کے لئے ہر کام کرنے میں آزاد ہیں لیکن مزدور پر پابندی لگا دی جاتی ہے کہ وہ ایک ادارے میں کام کرتے ہوئے دوسرے کو خدمات فراہم نہیں کر سکتا۔ اگر سرمایہ دار اپنی آمدن بڑھانے کے لئے سیاسی قوتوں اور مذہبی گروہوں کو اتحادی بنا سکتا ہے تو نچلے طبقات کو یہ حق کیوں نہیں کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں اور ہر شعبہ سے منسلک افراد کو اپنا اتحادی بنائیں۔ لیفٹ کے دانشوروں کا ہمیشہ مذاق اڑایا گیا‘ ان میں سے کچھ کی ذاتی سرگرمیوں کو استحصالی قوتوں نے گناہ قرار دے کر مشہور کیا۔یوں ان لوگوںکی ابلاغیاتی سپیس کم کی گئی۔کچھ کو اس قدر ڈرا دیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں ملک سے جانے والوں کی کلاس کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں ۔98فیصد وہ لوگ ہیں جو درمیانے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔حیرت یہ ہے کہ ان میں مذہبی سیاسی نظریات رکھنے والے شامل نہیں۔اس لئے کہ جب پاکستان سے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والے نکل جائیں گے تو پھر سرمایہ داری کا عالمی ایجنڈہ اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے پوری طرح نافذ کر دیا جائے گا۔بجلی کے بلوں پر لوگ جتنا مرضی روتے رہیں ‘ سیلاب ہر سال کسانوں کا نقصان کرتا رہا کوئی مستقل حل نہیں ڈھونڈے گا۔ان کی اشک شوئی نہیں کی جائے گی کیونکہ سماج پر ان طبقات کا کنٹرول مستحکم ہو چکا ہے جن کے خلاف کچھ سر پھرے جدوجہد کرتے اور بدلے میں سیکولر‘ لادین اور کافر کی تہمتیں بھگتتے۔ ان گالیوں کو طبقاتی جنگ کے تناظر میں دیکھ لیں گرہ کھل جائے گی۔