عاشورہ محرم 1445ھ روایتی عقید ت و احترام اور حْسنِ انتظام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔طویل عرصے کے بعد صوبے کی 95 فیصد موبائیل فون سروس معطل نہ ہوئی،ہیوی ویٹ کنٹینر اور جمبوسائز ٹرالرکھڑے کر کے بلا ضرورت راستے بند نہ کیے گئے۔ مجالس، محافل ِ ذکرِ حْسینؑ اور تعزیہ و عزاداری میں کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ جس خطّے میں سب حسینؑ کے ماننے والے ہوں، بھلا وہاں کسی کو کسی سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ متحرک و مستعد رہے۔ نرم دم ِ گفتگو اور گرم دم جستجوکے مصداق۔ اپنے ٹارگٹ اور اہداف کی طرف بڑھنا اور بڑھتے ہی چلے جانا، لیڈر شپ کی یہی خوبی ہوتی ہے۔ "Easy to access" یعنی جس تک آسانی سے رسائی ممکن ہو، خطرات میں سب سے آگے، سچا اور کھرا ایسا کہ زبان سے اْسے کچھ بولنے یا کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ بس باڈی لینگوئج ہی کافی ہو۔ 9 محرم کو داتاؒ دربار کی رسم ِ غسل میں شریک ہوئے، پوری طرح رَچ بَس کر، مزار کے حجرہ شریف کے اندرونی سنگِ مَرمَر کی تجدیدِ نو کی ہدایت کردی۔ اہلکار مستعد ہوگئے، انشاء اللہ سوا ماہ بعد سالانہ عرس کی رسم چادر پوشی کے لیے آئیں گے تو کچھ نیا پائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے برملا، میڈیا بریفنگ میں کہہ دیا کہ " محسن نقوی کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا"۔لکھاجانا بھی چاہیے، اس لیے کہ جو اس کے راستے میں مٹتا ہے قدر ت اْسے اَمر کردیتی ہے، بلندی اور پیشوائی تو حسینؑ کے لیے ہے یا اْس کے ماننے والوں کے لیے، تقریب میں الحاج ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی نے بھی تو یہی نغمہ الاپا اور سماں باندھ دیا۔ خدا کا قرب پاتے ہیں نبیﷺ والے علیؓ والے ہمیشہ جگمگاتے ہیں نبیﷺ والے علیؓ والے اْنہے ملتا ہے صدقہ سیّدہ زہرہؑ کے بچوں کا انہی پر ہی لْٹا تے ہیں نبیﷺ والے علیؑ والے حسنؑ کا نور ہو جن میں حسینیؑ رنگ ہو جن میں کہاں پھر ڈگمگاتے ہیں نبیﷺ والے علیؑ والے اثنائے تقریب میں دائیں مْڑ کر دیکھا تو خواجہ خواجگان معین الدین چشتی اجمیریؒ کا حجرہ اعتکاف نیاز مندی کا ایک جہاں سمیٹے، سراپا اعلان و اظہار بنا ہوا تھا: حَقا کہ بنائے لاالہ است حسین کہ اْمّت میں لا الہ الا اللہ کی عملی بنیاد اور حریت کی اساس سیّد الشہداء حضرت امام عالی مقام ہیں۔ کربلا کے ریگزار پر اگر نواسہ رسول اپنے خون سے اْس کی عملی تفسیر رقم نہ کرتے، تو دنیا اس کے وسعت ِ معنٰی سے بہر ہ مند نہ ہو پاتی، خواجہ معین الدین چشتیؒ کے اس تخیّلِ فکر کو اقبال ؒ زیر بحث لائے اور لانا بھی چاہیے تھا اس لیے کہ خواجہ اجمیری ؒنے، حضرت امام عالی مقام کے لیے اپنی اس رباعی میں جو کچھ کہا وہ محض عقیدت کی بنا پر نہیں تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ امام حسینؑ ،کیو نکر لا الہ الا اللہ کی اساس قرار پائے: بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است پس بنائے "لا الہ " گردیدہ است آپؑ یعنی امام عالی اور آپؑ کا کنبہ جس میں 18 سال کا جوان شہزادہ علی اکبر بھی تھا، جس کو دیکھ کر اہل محبت اپنی آنکھوں کے لیے روشنی اور ٹھنڈک کا اہتمام کرتے، اس لیے کہ آپؑ شبیہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، اور آپؑ کے وجود کے ٹکڑوں کو کر بلا کے ریگزار سے جب اٹھاون سالہ سن رسیدہ باپ اکٹھا کر کے اپنی جھولی میں ڈال چکا تو اْس نے آسمان کی طرف سر اْٹھایا اور عرض کی، اے زمینوں اور آسمانوں کے خالق و مالک!تیرے بندے نے اپنی سب سے قیمتی متاع بھی تیری بارگاہ میں پیش کردی۔ا قبال کہتے ہیں کہ آپؑ اور آپؑ کا کنبہ حق کی خاطر خاک و خون میں لَوٹ پَوٹ ہوگئے، اپنے لہو سے انہوں نے کربلا کی خاک کو مشکبوکردیا، اپنے سر نیزوں پہ آراستہ کروادیئے، پاک باز خواتین کو کوفہ و شام کے بازاروں میں جانا قبول کرلیا۔ لیکن دین کی سر بلندی، اسلام کی حقانیت، توحید و رسالت کی سچائی اور ابدیت پر کوئی کمپرو مائز نہ کیا۔ اقبال نے اسی فکر وفلسفہ کی مزید توضیح و تشریح کی: زندہ حق از قوّتِ شبیر است باطل آخر داغِ حسرت میر ی است یعنی حق اور حقیقت تو " شبیّریّت" کا نام ہے اور اسی کے بَل پر حق زندہ و تابندہ ہے اور باطل کے حصّے میں حسرت ناک موت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ: موسٰی و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت ازحیات آ مد پدید یعنی جب سے کائنات معرض ِ وجود میں آئی ہے، تب سے حق و باطل کی معرکہ آرائی روبہ عمل ہے، باطل اگر نمرود کی شکل میں آیا تو حق ابراہیمؑ بن کر بر سر پیکار ہوا۔ باطل فرعون کی صورت میں نمودار ہوا تو حق حضرت موسیٰ ؑکی شکل میں اور اگر ظلمت و گناہ اور تاریکی و جھوٹ نے یزید اور یزیدیت کا روپ دھارا تو حق شبیر اور شبیریت کی صورت میں جلوہ آرا ہوا اور اس نے باطل قوتوں کو ایسی عبرتناک موت سے دوچار کردیا، جس کے سبب قیامت تک اس کے حصّے میں رسوائی، ذلت اور شکستگی کے سوا کچھ نہیں۔ تاقیامت قطع استبداد کرد موجِ خونِ اْو چمن ایجاد کرد اقبال خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے سیّد الشہداء ؑ کی بارگاہ میں اپنے منظوم نذرانہ میں عرض گزار ہوتے ہیں کہ آپ ؑ نے باطل قوتوں کو جس طرح للکارا اور بے سرو سامانی کے باجود کلمہ حق کا سر بلند کی، اگر آپؑ یہ فریضہ سر انجام نہ دیتے اور موروثی بادشاہت کے اس عمل پر مصلحت آمیز خاموشی اختیار کر لیتے تو اس سے اسلام کا سیاسی اور شورائی جمہوریت کا پورا نظام زمین بوس ہوجاتا۔ آپؑ نے باطل قوتوں کو للکارکر، سیدھے راستے کا تعین کردیا۔ اپنے اور اپنے خاندان اور جانثار ساتھیوں کی لازوال قربانیاں پیش کر کے، حق کے راستے میں قربان ہونے کی ایک ایسی رسم ڈال دی، جس کے سبب استحصالی قوتیں، اپنے اقتدار کے باوجود لرزہ بر اندام رہیں گی اور دنیا میں جہاں بھی اور جس بھی طبقے میں حریتِ فکرو عمل، انسانی حقوق اور سیاسی استحکام اور آزادی کی تحریک چلے گی وہ لاشعوری طور پر حسینؑ کو اپنا لیڈر اور حسینیت سے انرجی اور توانائی کے متمنی ہوگی۔