معزز ججز کو خطوط میں بھیجے گئے مبینہ پاؤڈر اینتھریکس کا چرچا زبان زد عام ہے۔ انتھراکس پاؤڈر کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ججز کو ملنے والے مشکوک خطوط سی ٹی ڈی یا پولیس کے حوالے کردیئے گئے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ خط کھولنے والے عملے کی آنکھوں میں سوزش کی شکایت ہے۔ انتھریکس ویسے تو ایسی بیماری ہے جو مہلک بیکٹیریا کے ذریعے لگتی ہے، اینتھریکس پاؤڈر اس بیکٹریا کے انڈے ہیں، جو ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہیں، اینتھریکس سے متاثرہ فرد کو شدید فلو جیسی شدید بیماری لاحق ہو سکتی ہے جبکہ منہ، ناک اور کان سے خون بھی جاری ہوسکتا ہے اور بر وقت علاج نہ ہونے پر متاثرہ فرد کے ہلاک ہونے کے بھی خدشات ہوتے ہیں، اینتھریکس بیکٹیریا کو لیبارٹری میں بھی تیار کیا جاسکتا ہے، مہلک بیکٹیریا کو خط کے ذریعے، کھانے اور پانی میں ملا کر یا ہوا میں بھی اچھال کر پھیلایا جاسکتا ہے، امریکا میں اس کے ذریعے دہشتگرد حملے بھی ہوچکے ہیں۔ 2001ء میں امریکا میں خطوط سے بھیجھے گئے اینتھریکس سے 22 افراد متاثر ہوئے تھے، جن میں سے 5 جان کی بازی ہار گئے تھے، گذشتہ روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے تصدیق کی تھی کہ ان سمیت تمام آٹھ ججوں کوخط موصول ہوئے اور جب ایک جج کے عملے نے خط کھولا تو اس میں پاؤڈر تھا، خط کھولنے والے عملے نے آنکھوں میں سوزش کی شکایت کی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خطوں میں اینتھراکس کا بتایا گیا ہے ، خط میں ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود ہیں، خط کسی خاتون نے اپنا ایڈریس لکھے بغیر ججوں کو ارسال کیے۔ خط مبینہ طور پر ریشم اہلیہ وقار حسین کے نام سے منسوب ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا معمہ ابھی حل نہیں ہو پایا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوگئے، سپریم کورٹ کے دیگر ججز جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین کو بھی ایسے خطوط موصول ہوئے، ان چاروں خطوط میں پاوڈر موجود ہونے کے ساتھ ان میں دھمکی آمیز اشکال بھی بنی ہوئی تھیں، ان چاروں خطوط کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور مقدمہ درج ہو چکا ہے، ججز کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کا سلسلہ یہاں تک بھی تھم نہ سکا اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد کو بھی مشکوک خط موصول ہوگیا، مشکوک خطوط لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام سے بھی موصول ہوئے ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے نام خط میں مشکوک پاوڈر کی پڑیا بھی موجود تھی، سب سے پہلے مشکوک خط چیف جسٹس کے عملے کو موصول ہوا تاہم عملے نے خط کو معمول کا لیٹر سمجھ کر نظر انداز کر دیا، ان خطوط کو کھولا نہیں گیا جبکہ پولیس نے دونوں خطوط اپنی تحویل میں لے کر تشویش شروع کر دی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججز کو ایسے خطوط موصول ہونے کے اصل محرکات سامنے نہیں آ سکے لیکن وکلا کی ایک بڑی تعداد اس کو اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ان خطوط سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز عدالتی معاملات میں ریاستی اداروں کی شدید قسم کی مداخلت کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ چکے ہیں جس میں انتہائی درجہ کے الزامات کا تذکرہ ہے، اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لے چکے ہیں، جس کی سماعت کے دوران انھوں نے فل کورٹ بینچ بنانے کا عندیہ دیا اور کہا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے اس کیس کو نمٹائیں گے۔ سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے۔ کہا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طور پر ملتا ہی نہیں ہوں، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، سماعت کا ابھی آغاز کیا ہے، سب چیزوں کو دیکھیں گے، پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے، ہمیں بھی کیس میں سنا جائے تو چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طے کرتی ہے، کمیٹی نا عدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کا، اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا: ججز کے خط کے معاملے پر ایگزیکٹو نامزد ہیں، کیا خط کی انکوائری بھی ایگزیکٹو کریں گے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑے دیا گیا، چھہتر سال سے یہی ہورہا ہے، چھ ججوں کے خطوط بھی اسی طرز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ایم پی او کا سہارا لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ وطن عزیز میں عدلیہ کی آزادی پر ہر دور میں سوالات اٹھتے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان چونکہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کر چکے ہیں تو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے یہ ریفرنس ایک اس جج نسیم حسن شاہ کے بیان پر دائر کیا تھا جو بھٹو مرحوم کو سزا دینے والے سپریم کورٹ کے بنچ میں شامل تھے اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں بھی بھرپور عدلیہ کی آزادی کی تحریک آخر کار ان کے چل چلاؤ کا موجب بنی تھی، اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی کو آزاد عدلیہ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں جس کا گاہے بگاہے اظہار سامنے آتا رہتا ہے، گذشتہ روز بھی بانی پی ٹی آئی نے ججز کے خط کے حوالے سے کہا کہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے تھی، بہرحال مادر وطن میں عدلیہ اور رول آف لاء کے حوالے سے محاذ گرم ہے، مس ہینڈلنگ بڑی وکلاء تحریک کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔