سیاسی حرکیات پر تبصرہ میرا مرغوب موضوع نہیں ہے۔مگر سیاسی حرکیات اور بڑے حجم کی سیاسی ڈویلپمنٹ سے ایک عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے اس سماج میں کیا تبدیلی آتی ہے یہ میرا موضوع ضرور ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی انتخابات اب کوئی سستا کھیل نہیں یہ اربوں روپے کی ایک ہیل آف بگ گیم ہے۔ جس قسم کا ہمہ جہت اثرورسوخ پاکستان میں سیاست کرنے کے لیے درکار ہے، اس میں کوئی متوسط طبقے کا آدمی سیاست میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ سیاست وہ داشتہ ہے جس کے اخرجات اٹھانا اس کے بس کا روگ نہیں۔ 70فیصد پاکستانی ایسے ہیں جو معاشی حالات کی تنگی کا شکار ہیں۔ان ستر فیصدمیں بھی 50 فیصد لوگ ایسے ہیں جو سخت ناداری اور غربت کا شکار ہیں۔پاکستان کے تقریبا 80 فیصد عوام محض ایک تماشبین کے طور پر سیاسی عمل کو دیکھتے ہیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ سیاسی عمل بھی وہ جو سیاستدانوں کے اقتدار کو طول دینے کے لیے کئے گئے سمجھوتوں اور اصولوں اور ضابطوں کی پامالی پر مبنی قلابازیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیںکہ ہم اسے ہی سیاسی عمل تسلیم کریں اور یہی ہماری پاکستانی مارکہ جمہوریت ہے جو سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ اس سارے سیاسی عمل میں عوام کا کردار یہ ہے کہ الیکشن کمپین میں رنگ بھریں نعرے لگائیں، انقلاب کے خواب دیکھیں اور تبدیلی کی لے پر رقص کریں۔ اپنے منظور نظر سیاسی لیڈر کا قصیدہ پڑھیں، مخالف سیاسی رہنماؤں کے پرخچے اڑائیں، ہجو گائیں اور اپنے ممدوح سیاسی لیڈر کی ہر الٹ بات کو صحیح ثابت کرنے پر مخالفین کے سامنے تلواریں سونت کر کھڑے رہیں بس ان کا عمل دخل سیاست میں اتنا ہی ہے۔ پاکستانی عوام جو سیاسی عمل کے دوران نے تماشبین کا کردار ادا کرتے ہیں ان کی اہمیت صرف اور صرف اس دن بنتی ہے جب الیکشن ہوتے ہیں الیکشن کے دنوں میں وہی وی آئی پی ہیں ۔ قومی انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات ایک عام آدمی کی اہمیت انہی دنوں اجاگر ہوتی ہے۔ایک عام پاکستانی جو سیا سی عمل میں تماشبین سے زیادہ کی اہمیتِ نہیں رکھتا اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ تمہارے ووٹ سے تبدیلی آئے گی تمہارا ووٹ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ پہلے اس عمل میں پڑھا لکھا طبقہ کا الگ تھلگ رہتا تھا مگر سیاست میں عمران خان فیکٹر نے پڑھے لکھے طبقے کو پولنگ بوتھ تک پہنچا دیا ہے۔اتنی بڑی تبدیلی کے باوجود پاکستان میں سیاسی عمل اپنے پسندیدہ لیڈر کی اندھی تقلید کے گرد ہی گھومتا ہے۔ سیاست پیسے کا کھیل ہے پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کی صورت حال اب لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ ویڈیو اور آڈیو لیکس آجاتی ہیں۔ خفیہ ملاقاتوں کی بازگشت میڈیا میں سنائی دینے لگتی ہے تو سیاستدانوں کے چہرے بے نقاب ہو جاتے ہیں اور انکے چہرے پر لکھی ہوئی ان کی خواہش کی داستان صاف نظر آنے لگتی ہیں۔ شہر اقتدار کے منظر نامے پر جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔سیاسی جماعت اقتدار میں آکر اپنے مفاد کے تحت سمجھوتے کرے تبدیلی اور انقلاب کو اٹھا کر نظر یہ ضرورت کے ڈسٹ بن میں ڈال دے۔اپنا بیشتر وقت دوبئی اور لندن۔میں گزارے یہی اہل اقتدار کا طرزسیاست ہے اور یہی سکہ رائج الوقت ہے۔حتی ٰکہ سیاست میں مثالیت پسندی کا نعرہ لگا کر آنے والے کپتان کو بھی شہر اقتدار میں آکر یہی کچھ کرنا پڑا۔ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے انقلاب، انصاف اور مساوات کے تمام نعرے نظریہ ضرورت کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ اب وہ بھی پاکستانی مارکہ جمہوریت کے منظر نامے میں ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ الیکشن میں دیرینہ کارکنوں کو ٹکٹس دینے کے وعدے سیاسی جلسوں ضرور کرتے رہے مگر ٹکٹس پھر انہی کو دئیے جو سیاسی میدان کے " چھٹے" ہوئے الیکٹیبلز ہیں . یہ الیکٹیبلز اپنی ذات میں ایک پریشر گروپ کی طرح ہوتے ہیں، چاہے جس مرضی سیاسی پارٹی میں چلے جائیں ہر جگہ ان کی آؤ بھگت ہوتی ہے کیونکہ یہ اپنی بھاری ذات برادریوں کے بل بوتے پر پر ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا معرکہ عمران خان نے اپنے فی الوقت بیانیے کی جیت کے ساتھ اپنے نام کرلیا ہے۔شریفس کو پنجاب میں شکست ہونا ان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے۔مریم نواز شریف کا خوامخواہ کا جارحانہ انداز سیاست وخطابت بری طرح پٹ چکا ہے۔ عمران خان کے حامی بجا طور پر خوشی سے نہال ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھتا ہے۔ساڑھے چار سال کار حکومت گواہ ہے کہ کپتان آئیڈلزم کی دھند سے باہرآچکے ہیں اور realpolitik کے سارے داؤ پیچ آزمانا جانتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے حامیوں کو آئیڈیلزم کی اسی دھند میں رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان میں سیاسی ڈائنامکس انصاف پسند جمہوریت کے سیدھے سادے اصول پر نہیں چلتی۔سیاسی جلسوں میں آپ کو صاف اور با کردار امیدواروں کے نعرے لگانے پڑتے ہیں لیکن الیکشن ہوں تو آپ ان کو ٹکٹس دے کر خسارے کا سودا نہیں کرتے۔کیا کوئی یہ سوال عمران خان سے کبھی کر سکے گا کہ وہ اپنے جلسوں میں جو باتیں کرتے ہیںاسے اپنی عملی سیاست میں نافذ کیو ں نہیں کرتے۔ اگر عمران خان فیکٹر اور عمران خان کا بیانیہ اتنا ہی طاقتور تھا تو پھر انہیں الیکشن جیتنے کے لیے پارٹی کے مخلص اور وفادار کارکنوں کو نظر انداز کرکے الیکٹیبلز کی ضرورت کیوں پڑی؟ عمران خان اس وقت بہت بڑی سیاسی حقیقت ہیں مگر تبدیلی اور انصاف کا استعارہ ہرگز نہیں۔ عمران خان بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح تمام سیاسی داؤ پیچ سیکھ چکے ہیں اصولوں پر سمجھوتہ کرنا جانتے ہیں نظریہ ضرورت کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو سکتے ہیں اور بوقت ضرورت بیانیہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ بہرحال یہ کمال بھی عمران خان کا ہے کہ ایک طرف وہ عملیت پسندی پر مبنی سیاست بھی کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنے حامیوں کو اپنی ذات سے وابستہ آئیڈیلزم اور تبدیلی کے رومانس سے باہر بھی نہیں آنے دے رہے۔