بابا جی سے کسی اِرادت مند نے کہا،سرکار،دنیا بڑی ترقی کر گئی ہے۔جواب بڑا دلچسپ تھا۔کہنے لگے"کیا مرنے یا پیدا ہونے کا طریقہ بدل گیا ہے"؟زندگی کے بنیادی سوال ہمیشہ سے ایک ہی ہیں۔وہ نہ بدلتے ہیں،نہ بدلیں گے۔بس روپ بدل لیتے ہیں۔نئے نئے لبادے اوڑھ لیتے ہیں۔ہمیشہ سے ہمیشہ تک سوال بھی نہیں بدلے اور انسان کی کیمسٹری بھی۔اللہ کا پیغام بھی وہی ہے۔کائنات میں وقت اور مقام(زمان اور مکان)کی فزکس بھی وہی ہے۔زندگی کیسے بسر ہو؟کہاں بسر ہو؟کسی درویش نے کیا خوب کہا،طالب اللہ مذکر ہوتا ہے۔۔طالب دنیا مؤنث۔پوچھا گیا کہ دونوں کا طلب کرنے والا؟باکمال جواب تھا"وہ موخنث ہوتا ہے"۔کائنات کی مستقل الجبر،جیومیٹری تب بدلتی ہے جب حبیبؐخدا معراج پر تشریف لے جا رہے ہوں یا اُن کی محبت میں ڈوبا ہوا کوئی ہاتھ اُٹھا دے دُعا کے لیے۔عام آدمی۔۔دنیادار اپنے نفس کا غلام ہوتا ہے،دنیادار۔حضرت علی ؑکا ارشاد ہے کہ دنیا مُردار ہے اور اس پر ٹوٹ پڑنے والے کتوں کی مانند ۔مگر طالب اللہ کے ہاتھ میں اپنے نفس کی لگام ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی رضا کے لیے نفع اور نقصان،سود اور زیاں سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔روٹی،کپڑا اور مکان کا مسئلہ پہلے دن سے درپیش ہے اور آخری دن تک آخری انسان کو بھی درپیش رہے گا۔یہ وہ مسئلہ اور معاملہ ہے جو اللہ کریم نے انسانوں کے امتحان کے لیے رکھ دیا ہے۔وہ انسان کو دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی۔کبھی بھوک سے کبھی خوف سے۔مگر یہ ظاہر کی دنیا ہے اور اس کی لگام،اس کا انتظام نظر سے اوجھل ہے۔اس پر صاحبِ عقل دانشور ایک ہزار دلیل لے آئے گا،اس خیال کے خلاف۔ارشاد ہو رہا ہے،جس نے اپنے نفس کو پہچانااُس نے ربّ کو پہچان لیا۔سرکارؐ نے جن کو باب العلم کا لقب دیا، اُن کا کہنا ہے"اے انسان تیرے اندر ایک کائنات پوشیدہ ہے"۔مگرانسان کے اور حقیقت کے درمیان پردہ اور حجاب ہے۔دنیاوی علم بھی حجاب ہے جسے بابا بُلھے شاہ نے یوں مخاطب کیا ہے"علموں بس کریں او یار"۔یہ دنیاوی علم طالبِ دنیا ہوتا ہے۔ حرص، ہوس، خواہش، آرزو،تمنااور امیدوں کا طول ہی دراصل حقیقت اور انسان کے درمیان حجاب ہے۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی ؑ ایک جگہ جوفرما رہے ہیں اس کا مفہوم کچھ یوں ہے:جب خواہش کا بے لگام گھوڑا سر پٹ دوڑتے دوڑتے ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو یاد کرنا اُن کو جو کبھی سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے۔اونچے اونچے محلوں اور گھروں میں رہتے تھے۔قیمتی ترین گھوڑوں پر سواری کرتے تھے۔خوبصورت ازواج کی خواہش کرتے تھے۔ریشم اور اطلس کے لباس پہنتے تھے۔وہ سب اب کہاں ہیں؟تو تمہیں چند ٹوٹی ہوئی قبروں اور کھوپڑیوں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔وقت جتنا بھی بدل جائے مگر انسان تو اللہ کی تخلیق ہے۔ہر انسان آگ،ہوا،مٹی اور پانی کا مرکب ہے۔اس کے اندر روح بھی ہے اور نفس بھی۔نفس کیا ہے؟ کام، کرودھ، لوبھ، موہ، ہنکار۔اس کے اندر لذت اورلالچ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔اس کے اندر خواہشوں کا ہجوم ،لمبی امیدیں اور بھٹکانے والی خواہشات ہیں۔یہ ایسا ایسا فریب دیتا ہے کہ درست، غلط اور غلط۔۔ درست لگنے لگتا ہے۔اسی لیے آقا ئے دو جہاں فرما رہے ہیں کہ اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا کر۔اب یہ وہ علم نہیں جو دنیا بھر کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں دیا جاتاہے۔یہ علم وہ ہے جو نبیوں اور ولیوں کے ذریعے انسان کو تفویض کیا جاتا ہے۔انسان اور حیوان میں بنیادی فرق فکر اور علم کا ہے۔اسی لیے اللہ نے اسے عقل عطا کی اور اشرف المخلوقات قرار دیا۔عقل کے ساتھ اس میں نفس بھی رکھ دیا۔پھر اسے حق اور باطل کی تمیز کے لیے کتاب بھی دی اور وہ ہستی بھی جو کتاب کی عملی تفسیر تھی۔حضرت انسان کے سینے میں حق اور باطل دونوں رکھ کر اسے بتا دیا گیا کہ یہ حق ہے۔ سرکارِ رسالتؐ کی آمد کے ساتھ ہی انسان سازی کا پیغام مکمل ہو گیااور رول ماڈل بھی۔راستہ طے ہو گیا،سمت معین ہو گئی۔آقاؐ نے انسان سازی کو اس کی معراج پر پہنچا دیا۔کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس پروگرام کو فالو کرے جسے کائنات کے ربّ نے اپنی کتاب میں اپنے محبوب کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔سورۂ روم میں ارشاد ہو رہا ہے"بغیر کسی انحراف کے اپنا رُخ دین کی طر ف کر لو۔اللہ ہی ہے جس نے تمہاری سرشت بنائی اور انسانی طبیعتوں کو ڈھالا"۔پھر ربّ نے کہا"اللہ کی بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی ممکن نہیں"۔ایسے میں حضرت انسان چاند چھوڑ خلاء میں ہائوسنگ سکیم بھی بنا لیں،انسان اپنی تشکیل کے ڈیزائن سے فرار نہیں ہو سکتا۔مگر عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔آج کا دانشور میڈیا کے ذریعے ایسی ایسی اینٹی اللہ دلیل لاتا ہے کہ گمراہی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ربّ کہہ رہا ہے"مگر اکثریت نہیں جانتی"۔آج کا انسان بے پناہ معلومات رکھتا ہے مگر علم نہیں۔دنیائے اسرار کے قُطب۔۔صوفی برکت صاحب کا کہنا ہے۔"میرے آقاؐ نے کسی سے کوئی علم نہیں پڑھا مگر کل کائنات کو پڑھایا۔آقاؐ کا در کائنات کے لیے رحمت کی چابی ہے"۔ آج کا انسان بلکہ ہمیشہ سے انسان ظاہری اسباب میں الجھا رہتا ہے۔سبب اور اسباب اس کے لیے وہ کیلکولیٹر ہوتا ہے جس سے وہ ناپ تول کر جوڑ توڑ کرتا رہتا ہے۔مگر درویشوں کے مطابق جہاں سے اسباب کی دنیا ختم ہوتی ہے وہیں سے اللہ کے فضل اور رحمت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔اقبالؔنے اسی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ کیا: صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے جو عقل کا غلام ہے وہ دل نہ کر قبول دنیاوی دانشور جو سودا عقل کی رو سے بیچتے ہیں یہ وہ عقل ہے جو عیار ہے،سو بھیس بنا لیتی ہے۔بابا جی واصف صاحب دانشور اور درویش کا بڑا خوبصورت فرق بتاتے ہیں۔دانشور آپ کے اصل قد کو کاٹ کر آپ کو بونا بنا دیتا ہے۔درویش آپ کو آپ کی نظر میں معتبر بنا دیتا ہے۔آپ کو آپ کے قیمتی ہونے کا احساس دلا کر۔ایک آیت کے مطابق امامِ مبین نے ہر شے کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔کیا چاند،مریخ اور خلاء اللہ کے حصار سے باہر ہیں؟بس دانشوری ہے کہ انسان خلاء تک پہنچ گیا اور ہم یونہی بھٹک رہے ہیں۔بابا جی کے مطابق خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔