نگران حکومت نے حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بالترتیب آٹھ اور 11روپے سے زیادہ کمی کر دی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے اب بھی تیل عوام کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ غریب آدمی جو پہلے تین سے دو وقت کی روٹی پر آیا اب وہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر پا رہا، اس لئے کہ روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی اور تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں غیر معمولی کمی ہو چکی ہے ۔نتیجتاً بازار میں خریدار کم ہو گئے ہیں اور اس کا اثر تجارت سے لے کر صنعت تک تمام شعبوں پر اس حد تک منفی ہوا ہے کہ کاروبار کی بقا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے اس مشکل صورتحال میں بے شمار کام ٹھپ ہو رہے ہیں ۔جس سے غربت کا چکر زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بچوں کی تعلیم اور صحت و خوراک کے اخراجات اور بجلی وگیس کے بلوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور وہ گھر کی بتی روشن رکھنے کے لئے گھریلو اشیاء بیچنے اور بچی کھچی جمع پونجی خرج کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ حکومت ہے کہ عوام کی حالت زار سے بالکل بے تعلق نظر آ رہی ہے مگر اس کے کان پر تو کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اگر اس کی کوئی آنکھیں ہیں تو شاید چندھیا چکی ہیں اور اگر کوئی کان ہیں بھی تو ان میں اس قدر میل بھر چکی ہے کہ غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کی چیخیں اس کی سماعت کے پردے تک نہیں پہنچ پا رہی لیکن یہ بھی شاید میری خوش فہمی ہے کہ حکومت کو عوام کی کسمپرسی کا پتہ نہیں چل رہا ورنہ تو چٹکی بجانے میں عوام کو اس غربت کے گھن چکر سے نکالنے کی کب سے کوئی ترکیب کر چکی ہوتی۔اب بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں پیچھے جانا پڑے گا۔ برصغیر میں جاگیرداری کی شروعات تو کسی حد تک قدیم عہد میں ہو گئی لیکن تب اختیارات کا منبع مرکزی حکومت ہی ہوتی تھی۔ ان کے بعد چوتھی اورچھٹی صدی کے عہد میں اس کو عروج ملا جب مرکزی حکومت نے محصولات اکٹھے کرنے اور انتظامی اختیارات کے علاوہ نچلی سطح پر تمام سیاسی سرگرمیوں کو قابو میں رکھنے کے تمام اختیارات ان مقامی جاگیرداروں کو منتقل کر دیے۔ فیوڈل لارڈز نے مرکزی حکومت کے مطالبات زر اور ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے انتظامی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوام پر بہت زیادہ محصولات عائد کر دیے جس کے نتیجے میں عوام انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرتے رہے۔ اس کے بعد مسلمان دور حکومت میں سلطان علائو الدین خلجی نے 1296ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد مالی اصلاحات کیں۔ سلاطین دہلی کے دور میں پہلے زرعی پیداوار کا نصف حکومت محصولات کی مدد میں لے جاتی تھی پھر اس پر بھی حکومت کی تسلی نہیں ہوئی تو اس بہانے سے فی ایکڑ محصول مقرر کر دیا کہ کوئی فصل بوئے یا نہ بوئے اس کو اپنی زیر قبضہ زمین کے حساب سے حکومت کو محصول دینا پڑے گا ۔جب اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ یہ تو عوام کے لئے ناقابل برداشت ہو گا تو دربار نے یہ فیصلہ دیا کہ یہی تو اصل مقصد ہے تاکہ عوام حکومت کے محصولات اور اپنے گھریلو اخراجات پورے کرتے کرتے معیشت کے ایسے گھن چکر میں پڑے رہیں کہ ان کے پاس سیاسی معاملات پر سوچنے اور حکومت کے خلاف کسی طرح کی بغاوت کرنے کی سکت ہی نہ رہے۔اس طرح یہ سوچ جو گپتا عہد میں جاگیرداروں کے ذریعے پروان چڑھی اس کو عروج خلجی کے دور میں مل گیا اور اس کے بعد پھر ہمیشہ ہر حکومت نے اس پالیسی پر عمل کیا۔ مملکت خداداد پاکستان چونکہ اسی عہد کی وارث ہے جس کی بدمعاشیہ کے رول ماڈل پانچ پانچ ہزار لونڈیاں اور کئی کئی درجن بیویاں رکھنے والے حکمران ہیں جن کے حرم آباد رکھنے کے لئے عوام کو ٹیکس کے بوجھ تلے داب کر ان کا کچومر نکال دیا جاتا تھا۔اس کا اضافی فائدہ ہوتا تھا کہ عوام میں اتنی سکت ہی نہیں رہتی تھی کہ سیاست کے لئے وقت نکال سکیں اور حکومت کی زیادتیوں کیخلاف کوئی بغاوت منظم کر سکیں ۔خلجی نے تاہم ایک یہ کام کیا کہ اس نے استحصالی مالی اصلاحات نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے نہایت موثر نظام وضع کیا جس کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا قلع قمع کر کے رکھ دیا۔ انگریزوں کے دور میں بھی جی ڈی پی میں سالانہ ترقی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی لیکن انتظامی اقدامات کے ذریعے انہوں نے عوام سے محصولات اکٹھے کرنے کے ساتھ ان کو تاجر کے استحصال سے محفوظ رکھا۔ ہماری آج کی حکومت محصولات عائد کرنے میں تو گپتا عہد کے جاگیرداروں اور دہلی کی انگریز سلطنت کے افسران سے بھی بہت آگے نکل گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ منافع خور تاجر کے ساتھ اس مہم میں حصہ دار بن گئی ہے کہ عوام کا زیادہ سے زیادہ خون چوسا جائے۔ کچھ سال قبل ایک سربراہ مملکت سے چند صحافی دوستوں کی کھانے پر ملاقات ہوئی تو عوام کی حالت کی نشاندہی پر ان صاحب نے فرمایا کہ اگر عوام سکھی ہو جائیں گے تو ہم سیاست کیسے کریں گے۔ یہ ہے اصل بات۔ آج کا ہمارا سیاستدان عوام کی غربت کو فروخت کر کے اس میں سے اپنی سیاسی و مالی کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ یہ سیلاب اور بیماریاں، یہ بجلی کے بلوں و پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، یہ ڈالر کی اونچی اڑانیں ‘ یہ سرکاری سکولوں و ہسپتالوں کی حالت زار ،یہ گند اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ‘ یہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور سمگلنگ و منشیات اور اغوا کے کاروبار‘ یہ بھیک مانگنے والوں کی لمبی قطاریں ایسے ہی نہیں ہیں ۔ان سب کے پیچھے بدقسمتی سے یہ سوچ کارفرما ہے کہ مسائل بڑھائو یا بڑھنے دو پھر ریلیف دینے آ جائو تو عوام بغاوت کرنے کی بجائے تمہیں سلام کرنے پر مجبور رہیں گے۔