اس ہفتے دانشوروں کی دو مجلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کا واقعہ اس قدر نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے کہ معمول کی سیاسی پیشرفت کمتر معلوم ہونے لگی ہے اس لیے اسی مجلس کا احوال بیان کرنا مجھے سردست مناسب لگا جس کا تعلق عمران خان کی فکر اور پالیسی سے ہے۔ شریک محفل ایک دوست نے حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی نئی آڈیو ٹیپس کا حوالہ دیا۔ عمران خان ان ٹیپس کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس دانشور دوست نے ایک کالم نگار کی تحریر کا حوالہ دیا اور بتایا کہ عمران خان جنرل باجوہ کو ایسی ویڈیو اور آڈیو لانے کی ترغیب دیا کرتے۔ ان کی اس بات میں وزن تھا کہ عمران خان کے علم میں اپنے مخالفین کی وڈیو اور آڈیو ٹیپس آ رہی تھیں تو انہیں اپنے ماتحت اداروں کو یہ سلسلہ بند کرنے کا کہنا چاہیے تھا۔ اگر وہ اس وقت وہی موقف اختیار کرتے جو آج اپنا رکھا ہے تو عمران اس معاملے میں اخلاقی سطح پر اپنے مخالف سیاستدانوں سے کہیں بلند رہتے۔ نٹ کھٹ قومی سیاست روزانہ لباس تبدیل کر رہی ہے۔ بحیثیت مجموعی سیاست دانوں کا ایک رویہ پختہ ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ سیاست کی بجائے غیر واجب طریقوں سے اپنے مخالفین کو کھیل کے دائرے سے باہر دھکیلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی ادارہ اگر اعلان کر دے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا تو سیاسی جماعتیں طرح طرح کے منصوبے تیار کر کے ادارے کو بتاتی ہیں کہ وہ اس طرح سے پس پردہ اپنا کردار مستحکم رکھ سکتا ہے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ مرحوم رحمان ملک بے نظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھی کس طرح بنے۔ ہوا یوں کہ رحمان ملک ایف آئی اے کے درمیانی سطح کے افسر تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو ان کے کئی مخالفین کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ کچھ لوگوں کے فون ٹیپ کئے۔ سب سے مشہور ٹیپ ریکارڈنگ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک قیوم اور مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف کے مابین گفتگو کی تھی۔ اس ٹیپ میں شہبازشریف جسٹس ملک قیوم سے فرمائش کر رہے ہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو کو نااہل قرار دیں۔ جسٹس ملک قیوم اس معاملے میں ساری زندگی شرمندہ رہے لیکن کمال کا حوصلہ جناب شہبازشریف نے پایا ہے۔پی ڈی ایم حکومت بنانا، آصف علی زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان اور جسٹس ملک قیوم کو فون ان کی زندگی بھر کی کمائی پشیمانی ہیں۔ ایک اہم بات جس پر عمران خان کو طعنے دیئے گئے یہ ہے کہ وہ اب رجیم چینج آپریشن کی ذمہ داری امریکہ پر عائد نہیں کرتے۔ ان کی جانب سے اپنے اقتدار کو ختم کرنے والے کرداروں سے متعلق رائے بدلتی رہی ہے۔ پہلے انہوں نے امریکی سائفر کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ پھر نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو اصل کردار بتایا۔ اس کے بعد دوبارہ جنرل باجوہ کو مرکزی کردار قرار دے دیا۔ عمران خان ایک مدت سے امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کا نام نہیں لے رہے۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ عمران خان امریکہ کے ساتھ چلنے اور اس کی برتری کو کیسے قبول کرنے لگے ہیں۔گزشتہ دنوں کچھ امریکی حکام نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ ان حکام نے تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں سے ملاقات کی ۔ جو باتیں رپورٹ ہوئی ہیں وہ اس ملاقات کو معمول کی چیز بتاتی ہیں لیکن میں اسے ایک دوسرے پہلو سے دیکھ رہا ہوں۔ تحریک انصاف پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے۔ عمران خان جو کہتے ہیں ان کے حامی اس پر یقین کرتے ہیں۔ عمران خان کے بیانات نے پاک امریکہ تعلقات کو متاثر کیا۔ اسلامی ممالک کا الگ گروپ بنانے کی کوشش‘ سائفر پر تقاریر وغیرہ پر امریکہ فکر مند ہوا ہے۔ یہ بھی سچائی ہے کہ بہت سی جماعتیں امریکہ کے خلاف جلوس نکالتی رہی ہیں‘ کئی ایک پرچم نذر آتش کرتی تھیں۔ امریکہ ان کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہوا۔ معلوم ہے کہ یہ پاکستان کے عام لوگوں سے کٹے ہوئے گروہ ہیں جنہیں کسی نہ کسی سطح پر قابو کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ امریکہ کی طرف سے رابطے کب بحال ہونے شروع ہوئے یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن اب یہ رابطے فیصلہ کن مرحلے کا تعین کر رہے ہیں۔ ایک دانشور دوست بتا رہے تھے کہ عموماً امریکہ خود کو اچھا بچہ ثابت کرنے کا تردد نہیں کرتا‘ امریکہ اپنی ساکھ صرف اس وقت بہتر رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے جب اسے کوئی غرض ہو۔ خطے میں کچھ سٹریٹجک مووو کے لیے اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکہ عمران خان کو حقیقت مان کر اب آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ دوطرفہ ضرورت دونوں کو کس نکتے پر ملا سکتی ہے یہ کوئی راز نہیں۔ نظام کے اندر سے عمران کو یکدم کچھ مدد ملنے کے اشارے ممکنہ صورت حال کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ دکھ اور ابتلا کے زمانے میں انسان اپنی غلطیوں اور غلط پالیسیوں سے سیکھتا ہے۔ عمران خان نے سیاسی زبان کو جارحانہ لہجہ دیا۔ عمران خان نے اپنے مخالفین کے برے نام رکھے‘ عمران خان سیاسی لڑائی کو کسی اور طرح لڑتے رہے۔ انہیں جب کبھی متوازن رہنے کا مشورہ دیا گیا انہوں نے اسے مسترد کیا۔ لوگ انہیں ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے اس لیے غیر ضروری بیانات سے گریز کا کہتے ہیں۔لوگ چاہتے ہیں عمران بولنے سے پہلے تولنا سیکھیں۔ مجلس چونکہ دانشوروں کی تھی اس لیے یہ فکر نہیں تھی کہ گفتگو سے کوئی خوش ہو گا یا ناراض۔ بس درپیش صورت حال میں ملک کے پاس جو مقبول سیاسی قیادت ہے اس کی سوچ‘ سنجیدگی اور ریاستی امور کو چلانے والے نظام کے ساتھ تال میل کی صلاحیت کا جائزہ لینا تھا۔ رہی بات ان کے مدمقابل سیاست دانوں کی تو لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے منظر سے کئی دکھی پڑے ہیں‘ کئی اپنے کارکنوں کو ڈانٹ رہے ہیں کہ کم بختو! ایئرپورٹ پر میرے استقبال کے لیے اتنے ہی نکل آتے۔