اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ دس اپریل 2022ء کے بعد کا پاکستان اپنی تمام تر ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے ایک بالکل مختلف پاکستان کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ ایسا کچھ ایک دن میں نہیں ہو گیا، اور نہ ہی یہ کسی ایک واقعہ کے ردّعمل یا کسی ایک جادوئی شخصیت کی حمایت میں ہوا ہے۔ عوام کا اس طرح بپھرنا، اس ملک کا مقدر بن چکا تھا۔ گذشتہ پچھتر سال سے اس ملک کے اقتدار پر قابض چند طبقات اپنی پوری کوشش سے ایسے عوامل پیدا کرتے چلے آ رہے تھے جن کے ردّعمل میں ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب لوگ اجتماعی غصے، نفرت اور ناراضگی سے بھر پور ہو کر باہر نکل آتے ہیں۔ عوامی غصے اور نفرت کی نفسیات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اس پر جتنا کچھ لکھا ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ طاقتور طبقات کی آمرانہ روش کسی ملک پر ایسی سیاہ چادر تان دیتی ہے جس کے زیرِ سایہ ہر کوئی اپنے سے کمزور لوگوں کا جینا مشکل کر دیتا ہے۔ یہ طاقتور طبقات ریاست کے خوف اور ریاستی مشینری کے بہیمانہ استعمال سے لوگوں کو مسلسل خوفزدہ کئے رکھتے ہیں۔ لوگ اسی خوف سے مدتوں دبکے پڑے رہتے ہیں اور ہر طرح کا ظلم ایک عالمِ مجبوری میں سہتے چلے جاتے ہیں۔ انفرادی غصہ ہر اس شخص کے دل و دماغ میں بھرتا چلا جاتا ہے، جسے زندگی میں ان مقتدر طاقتوں کی وجہ سے ظلم برداشت کرنا پڑا ہو، ذلّت و رُسوائی اٹھائی ہو یا جانی و مالی نقصان برداشت کیا ہو۔ عقل مند ریاستیں لوگوں کی تھوڑی بہت داد رسی کے لئے راستے نکالتی رہتی ہیں، جیسے عدالت نے تھوڑا سا ’’ریلیف‘‘ دے دیا، یا کھلی کچہری میں کسی کی درخواست پر شنوائی ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ بھی چلتا رہے تو عوامی غصے کے غبارے سے ہوا نکلتی رہتی ہے۔ پاکستان کے تاریخی زوال کا المیہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس ملک میں ایسے تمام دروازے عوام پر ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے جہاں سے ایک عام آدمی کی داد رسی ہو سکتی تھی، اسے ’’ریلیف‘‘ مل سکتا تھا۔ آج عوامی کیفیت یہ ہے کہ تمام ریاستی قوتوں نے خود کو اس طرح یک جان اور متحد کر لیا ہے کہ اگر کوئی ایک ادارہ کسی ایک شخص سے ناراض ہو جائے تو پھر وہ بھلے، سیاست دانوں کی چوکھٹوں پر ماتھا رگڑتا رہے، عدالتوں میں مارا مارا پھرے، کسی جاننے والے کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی فریاد کرے، لیکن اس کی کہیں سنی نہیں جاتی۔ وہ ان تمام دروازوں سے آنسوئوں کو پونچھتا ہوا گھر لوٹ آتا ہے۔ یہ ہے وہ اندھیری بند گلی جس تک پچھتر سالوں میں اس ملک کے عوام کو آج پہنچا دیا گیا ہے۔ دنیا میں گذشتہ ایک سو سال میں لاتعداد ملکوں میں عوام اُٹھے اور انہوں نے حکومتیں اُلٹ کر رکھ دیں۔ ان تمام ممالک کے انقلابات کا ماہرین نے جائزہ لیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگ جب بھی کسی ریاست یا حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو ان کی اکثریت کو بالکل اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ ہجوم جس میں وہ شریک ہیں، وہ کونسی نفرت کا الائو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور اس کا ایجنڈہ کیا ہے۔ لوگوں کو بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ وہ جس حکومت یا ریاست کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ سڑکوں پر نکلنے والا ہجوم ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں ہر کسی کا اپنا دُکھ اور اپنا غصہ ہوتا ہے۔ کسی کو پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہوتا ہے، کسی کے پلاٹ پر کسی سیاست دان نے قبضہ کیا ہوتا ہے، کسی کا بیٹا دوا نہ ملنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں گیا ہوتا ہے، کسی کو رشوت نہ دینے کی وجہ سے نوکری نہیں ملی ہوتی، کسی کا باپ طاقتور بدمعاشوں کے ہاتھ قتل ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ سب اور ایسے لاتعداد دُکھ سینے میں لئے، لوگ بپھرے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ ہر ایک کا غصہ جو اس کے اندر اُبل رہا ہوتا ہے، اس کی وجوہات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ان سب کا نشانہ ایک ہوتا ہے… اقتدار، حکومت، ریاست اور طاقتور قوتیں۔ اگر عوام کو آرام سے اپنے غصے کا اظہار کرنے دیا جائے تو ان میں سے اکثر دلوں کا بوجھ ہلکا کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ نفسیات دان اسے اجتماعی اظہارِ جذبات (Collective Catharsis) کہتے ہیں۔ نفسیات میں کتھارسس دراصل کسی شخص کی دُکھ بھری داستان کو سکون سے سننے کے عمل کا نام ہے۔ اگر ایک نفسیاتی مریض کو سکون اور اطمینان کے ماحول میں سن لیا جائے تو اس کا آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عوام کو اجتماعی سطح پر احتجاج کرنے، نعرے لگانے، تقریریں کرنے یہاں تک کہ انہیں چھوٹی موٹی مغلظات دینے کی بھی چھوٹ مل جائے تو آہستہ آہستہ یہ عوامی ردّعمل کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر حکومت یا ریاست ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرے کہ لوگوں کو تھوڑا بہت ’’ریلیف‘‘ دینا شروع کرے تو یہ غصہ کافی عرصے کیلئے سرد ہو جاتا ہے۔ لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ ریاستیں اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ میں عقل و ہوش کھو دیتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ریاست ایک ’’عظیم‘‘ قوت ہے جس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ پاکستان میں اس قوت کا استعمال دو دفعہ کیا گیا اور دونوں دفعہ بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی دفعہ 26 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کے ذریعے اور دوسری دفعہ مارچ 1977ء میں باقی ماندہ پاکستان یا سابقہ مغربی پاکستان میں۔ مشرقی پاکستان میں عوام کی اکثریت بالکل آج کے پاکستان کی طرح خود کو ایک ایسی اندھیری بند گلی میں تصور کرنے لگی تھی جہاں ان کے نزدیک تمام ریاستی ادارے ان کے خلاف متحد ہو چکے تھے اور ایسے میں اگر ایک ادارہ بھی ان سے ناراض ہو گیا تو پھر کوئی ان کی فریاد نہیں سنے گا۔ اس لئے جب عوامی ردّعمل ہوا تو ہر ریاستی ادارے کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ 1977ء ذرا مختلف تھا، اس وقت ایک ریاستی ادارہ یعنی فوج ایسا تھا جس پر لوگوں کو کم از کم یہ شک نہیں تھا کہ وہ باقی ریاستی اداروں کے جبر میں شریک ہے، اس کے علاوہ عدلیہ سے بھی لوگوں کو تھوڑا بہت ’’ریلیف‘‘ ملتا رہتا تھا۔ ان دونوں کی مدد کے باوجود تحریک اس قدر جاندار تھی کہ عوام کا غصہ اس وقت تک کم نہ ہو سکا جب تک عوام کے غیظ و غضب کا ٹارگٹ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی حکومت برطرف نہ کر دی گئی۔ اس واقعے کو بیتے آج پینتالیس سال ہو چکے ہیں۔ ان پینتالیس سالوں میں جو کچھ اس قوم پر بیتی ہے اور جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ لوگ پاکستان کے ہر ادارے سے مایوس ہوئے ہیں اس نے جس طرح ہر فرد میں ایک انفرادی نفرت کو اجتماعی غصے اور ہیجان میں بدلا ہے، اس کا منطقی نتیجہ ہی دس اپریل 2022ء کو اچانک اٹھنے والا طوفان تھا، جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ عوامی احتجاج ایک خود رو پودے کی طرح ہوتا ہے یا پہاڑی ندی کے طوفان کی طرح۔ دونوں کو کسی کی مدد یا اشارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہوں نے پھیلنا، پھوٹنا اور دوڑنا ہوتا ہے۔ ان کے راستے کی رکاوٹیں ہمیشہ ناپائیدار ثابت ہوتی ہیں۔ ریاست مقابل پر ہوتی ہے مگر اس کے وسائل بہت محدود ہوتے ہیں۔ وہ صرف اپنے رعب اور خوف کے دم پر کھڑی ہوتی ہے۔ عموماً اس طرح کے ہیجانی احتجاج کے مقابلے میں ریاست سے ایک فاش غلطی نادانستہ یا دانستہ طور پر ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرنے کے بعد اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے جب ریاست کی یہ محدود قوت عوام سے ٹکراتی ہے تو پھر عوام اور ریاست کے درمیان خوف کی جھجک چند لمحوں میں ٹوٹ جاتی ہے۔ جیسے ہی وہ جھجک ختم ہوئی تو پھر کروڑوں کے جمِ غفیر کے سامنے ریاستی طاقت جو چند لاکھ بھی نہیں ہوتی بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔ لوگ چڑھی ہوئی ندی کی طرح سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔