سٹیفن پی کوہن،بروس ریڈل۔۔ولی نصر۔۔اوررابرٹ گیٹس وغیرہ نوع کے امریکی سکالر پاکستان کو ہماری نظر سے نہیں دیکھتے۔اکثروہ بھارت کی نظر سے بھی ہمیں نہیں دیکھتے۔بے نظیر کی پہلی حکومت میں دو خواتین غیر ملکی صحافی پاکستان آئیں۔ کرسٹینا لیمب۔۔ اور ایما ڈنکن۔۔۔کرسٹینا نے جو کتاب لکھی اس کا نام تھا۔۔ Waiting for Allah۔مرکزی خیال یہ تھا کہ اس ملک میں ہر کوئی کسی نہ کسی کرامت کے انتظار میں ہوتا ہے۔اس انتظار کے ساتھ مگر اُن کی اپنی زندگیاں خود نا انصافی اور تضادات سے بھری ہوتی ہیں۔اسی طرح ایما ڈنکن کی کتاب کا نام تھا۔۔ Breaking the Curfew۔اس میں وہ پاکستان کے جعلی حکمران طبقوں کا جی بھر کے مذاق اُڑاتی ہیں۔جرنیلوں کی کہانیاں۔۔جاگیرداروں کا منافقانہ کلچر،پیری۔۔مریدی،آقا اور غلام،بیوروکریسی کی وارداتیں اور سیاست کی منافقت۔اس پر کمال یہ کہ سارا سماجی ڈھانچہ تضادات سے پُر۔مذہب کی سیاست،سیاست میں مذہب،نظریے اور منافقت،کرپشن اور قانون،جہالت اور غربت۔۔لمبی بات ہے۔اسٹیفن پی کوہن اورولی نصر میرے پسندیدہ امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔پاکستان برطانیہ کے ہاتھوں میں پیدا ہوا مگر اس کی تربیت اورسکولنگ واشنگٹن و پینٹا گو ن میں ہوئی کہ ہمارے فیصلہ ساز سقراط امریکہ سے بہت متاثر تھے۔کیوں اور کیسے پھر کبھی۔وہ جو ہمارے آقا تھے اُن کے دیس کے پروفیسر جب ہم پر بات کرتے ہیں تو مکمل نہ سہی خاصی حد تک سمجھ آ جاتی ہے۔ پاکستان کے منفرد انگریزی تجزیہ نگاراسٹیفن پی کوہن سے بہت استفادہ کرتے ہیں۔کوہن امریکی تھنک ٹینک"فارن پالیسی ایٹ بروکنگز"کے سینئر رکن ہیں۔اسٹیفن سیاسیات اور تاریخ کے پروفیسر بھی رہے ہیں۔ اُن کی ایک کتاب ہے"آئیڈیا آف پاکستان"۔اس میں ایک باب میں وہ پاکستان کے مستقبل کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں۔اس کے چند اہم نکات یہ ہیں۔اسٹیفن کے مطابق پاکستان کا مستقبل چھ وجوہات کی وجہ سے ا سکے ہمسائیوں،خطے کے ممالک اور سُپر پاورز کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے مگر اِس کے اندر کا پاور پلے اور نظریاتی رجحان اِسے خطرناک بنا دیتا ہے۔ پڑوسی ملکوں میں جو مذہبی جہادی کارروائیاں ہوتی ہیں اُن پر پاکستان کا موقف زیادہ موثر نہیں ہوتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل کشیدگی خطے میں جنگ کے امکانات کو روشن رکھتی ہے۔ پاکستان کی معیشت(2010)جمود کا شکار ہے۔ پاکستان کی آبادی بڑھنے کے اشاریے تشویش ناک ہیں۔اس سے معیشت کی صورتحال مستقبل میں بدتر ہو گی۔ا س لیے پاکستان مستقبل میں اپنے پڑوسیوں کیلئے تشویش کا سبب رہے گا۔ کوہن کا یہ تجزیہ یارپورٹ متعصب ہو سکتی ہے۔اس میں امریکہ اور بھارت کا نقطۂ نظر شامل ہو سکتا ہے۔مگر2010ء کی یہ رپورٹ ،اس میں معاشی اشارات،بکھرتے ہوئے بنیادی ڈھانچے اور حکمرانوں کی ترجیحات کی طرف بھی اشارے ہیں۔2010ء سے2023ء تک ہم کہاں آن پہنچے۔صرف سیاسی،سماجی اور معاشی تباہی ہی اپنے کلائمیکس پر نہیں آئی۔۔۔ بیروزگاری، غربت، جہالت، مہنگائی،لا قانونیت اور تیزی سے ضربیں کھاتی آبادی؟ الامان الحفیظ۔اوپر سے ہمارے جعلی حکمران طبقے۔اسٹیفن جب پاکستان آئے تو ان کی کتاب" آئیڈیا آف پاکستان"کی ایک مقامی ہوٹل میں لانچنگ تھی۔اُن سے ملاقات سے پہلے میں اُن کی کتاب"پاکستان آرمی" فوج پر اپنا تھیسز لکھتے ہوئے پڑ ھ چُکا تھا۔امریکی تھنک ٹینک ہوں یابھارتی،پاکستان کا مستقبل وہ جن اشاریوں کی مدد سے جانچتے ہیں وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور جانبدار بھی۔مگر آج2023ء میں ہم جہاں پر کھڑے ہیں شاید وہ سارے اشاریے کہیں درست تو دکھائی نہیں دے رہے۔بھارت تو بھارت بنگلہ دیش بھی حیرت انگیز ترقی کر گیا،اپنے مسلسل سیاسی عدمِ استحکام کے باوجود اور فوج کی بار بار مداخلت کے ساتھ ساتھ۔ہم اپنے پڑوسیوں سے، خطے کے دوسرے ملکوں سے بہتر کیوں نہیں؟ مختلف کیوں ہیں؟ہم ایسے کیوں ہیں؟آپ گلوبل سکالرز سے مکالمہ کریں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے وطن کے وجود کو غیر جانبداری سے کیوں نہیں دیکھتے؟ایک سابق آرمی چیف جنرل ضیاء کے قریبی ساتھی نے ایک جگہ لکھا ہے "پاکستان دوست اور دشمن دونوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ملک ہے۔ اس کا جسم آمروں، سیاستدانوں۔۔ عدلیہ۔۔ جرنیلوں۔۔ بیوروکریسی اور میڈیا کی جانب سے لگائے گئے تذلیل، لاپروائی اور تکبر کے زخموں سے چھید چھید ہے۔اِن میں کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا"۔ ہمارے ایک دوست نے سوشل میڈیا کی وال پر پوسٹ لکھی کہ اب پورا منہ کھولنے کی اجازت اور آزادی صرف ڈینٹسٹ کے ہاں ہی ممکن ہے۔ مگر پھر بھی سوال تو بنتا ہے۔ہمارا ملک کون چلاتا ہے؟یہاں فیصلے کون کرتا ہے؟انوار الحق کاکڑ اور ڈاکٹر شمشاد اختر افتادگانِ خاک کو کوئی ریلیف دینے کی طاقت یا شکتی رکھتے ہیں؟یا اس سرکس میں، میں خیال ہوں کسی اور کا، والا معاملہ ہے۔وزیرِ خزانہ کا ایک جملہ حیران کر گیا۔ہم یہاں اس لیے نہیں لائے گئے کہ متاثرینِ بجلی بل کو ریلیف دیں۔ہمارا کام توIMFکے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کروانا ہے۔ کسے وکیل کریں۔۔کس سے منصفی چاہیں؟نگران حکومت؟ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ؟ نہیں۔بیرونی ڈونرز اورIMF؟نہیں۔بزنس کارٹلز اور بزنس مافیا اور رئیل اسٹیٹ مافیا؟نہیں۔تو پھر ریلیف کون دے گا؟ کس سے درخواست کریں؟کوئی بھی نہیں۔ہم جہاں کھڑے ہیں یہ سب کچھ کسی یہود اور ہنود نے ہمارے ساتھ نہیں کیا۔حسن نواز کے الحمد للہ کے مطابق یہ سب کچھ ہم نے خود کے ساتھ بڑی خوشی سے کیا ہے۔ہمارے دشمنوں کو کوئی تکلف نہیں کرنا پڑا۔ہم ہمیشہ سے اپنی غلطیوں اور حماقتوں کو دشمنوں اور غیروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم پون صدی سے اپنا ہی بدن نوچ نوچ کر کھاتے جا رہے ہیں۔یہ جرم صرف جعلی حکمران طبقوں کا ہی نہیں۔۔۔ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ہماری معیشت،ہماری سیاست بلکہ ہمارا سماج سارے کا سارا گل سڑ چکے ہیں۔ان کیلئے مستقبل میں ثواب نہیں عذاب لکھے ہیں۔ ہم سب ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں جہالت اور غربت کے سائے میں کرپشن اور دھوکہ عوامی سطح پر پروان چڑھتے ہیں۔بڑے بڑے ٹھیکوں سے لے کر۔۔۔چنگ چی مافیا اور ریڑھی مافیا تک۔ہم پانچ وقت کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور رشوت بھی ٹکا کر لیتے اور دیتے ہیں اور پھر فضلِ ربّی بھی تلاش کرتے ہیں۔جو ہر وقت خود کو دھوکہ دے،اُسے کسی اور کی بددعا کی کیا ضرورت ہے؟