غزہ میں غذائی بحران شدید ہوگیا ہے، انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر صورتحال پر فوری قابو نہ پایا گیا تو آنے والے چند دنوں میں بھوک سے ہزاروں اموات کا خدشہ ہے ،امریکی صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں اگلے ہفتے یعنی 4 مارچ تک جنگ بندی پر عمل درآمد ہو جائے گا،استنبول میں موجود حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم کا کہنا ہے کہ حماس کو تاحال جنگ بندی سے متعلق کوئی مجوزہ معاہدہ نہیں ملا ہے، حماس کا معاہدے میں مصر، قطر، ترکیہ ، امریکا اور روس کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ، غزہ کے مختلف علاقوں پر اسرائیلی بمباری میں مزید 100کے قریب فلسطینی شہید ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ہیں ،مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے حملوں میں 3فلسطینی شہید اور 3زخمی ہوگئے ہیں ، فارا کے مہاجر کیمپ میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی بائیڈن کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیر کے روز سے جنگ بندی کا امکان ہے ، قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ رمضان المبارک سے قبل طے پاسکتا ہے ، ذرائع نے بتایا کہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ معاہدے میں 40اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 400فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ 7اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل کے جنوبی حصوں پر حملہ کیا، جس میں تل ابیب کے مطابق تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔جس کے بعد اسرائیل کو تاریخ کے سب سے بڑے مالی اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔حماس کے کئی سرکردہ رہنمائوں کو شہید کیا ۔اسرائیلی فورسز کا اس تمام تر لڑائی میں اصل ہدف معصوم بچوں کو شہید کرنا تھا ،پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30 ہزار لوگ شہید اور 70 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کا چار اطراف سے محاصرہ کر رکھا ہے ۔ان کے پا س کھانے کے لیے کچھ ہے نہ ہی پینے کے لیے ۔ غزہ میں آبادی کا 25 فی صد یعنی تقریباً پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔ عملی طور پر یہ لاکھوں افراد زندہ رہنے کے لیے ناکافی انسانی خوراک کی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے، جتنی بھیانک تصویر آج ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں مزید بگاڑ کا امکان موجود ہے۔کیونکہ اسرائیل جنگ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔چند رو ز قبل ایک امریکی فوجی نے خو د کو سب کے سامنے موت کے گاٹ اتارا ،اس نے واضح طو رپر یہ کہا کہ امریکہ فلسطینی بچوں کے قتل میں برابر کا شریک ہے ۔دوسری جانب امریکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے غزہ میں امدادی کارکنوں کے تحفظ کے لیے 53 ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کر رہا ہے ۔امریکہ بین الاقوامی سطح پر امدادی کاموں سے متعلق ادارے 'یو ایس ایڈ 'یہ امداد عالمی پروگرام برائے خوراک اور دوسرے غیر حکومتی اداروں کے توسط سے بروئے کار لائے گا۔یہ امداد ان امدادی کارکنوں کو جائے گی جو اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر لوگوں تک خوراک پہنچا رہے ہیں۔ اس لیے اس امریکی امداد سے ان کے تحفظ کا بندو بست کیا جائے گا۔اس کے علاوہ امریکہ نے سات اکتوبر سے لے کر اب تک فلسطینیوں کے لیے مجموعی طور پر 180 ملین ڈالر کی رقم مدد کے لیے دی ہے تاکہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے مسلسل بمباری کے دوران تعاون کیا جا سکے۔امریکہ اس امداد کی بجائے اگر اسرائیل کو غزہ کے رہائشیوں کی نسل کشی سے روک دیتا تو یہ سب سے اچھا اقدام تھا مگر امریکہ نے تو کئی بار جنگ بندی کے لیے ہونے والی ووٹنگ کو ویٹو کر دیا تھا ۔ اقوامِ متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جلد جنگ بند ی نہ ہوئی تو غزہ کی پٹی میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔اقوام متحدہ میں موجود انسانی ہمدردی رکھنے والے متعدد عہدیداروں نے کہا ہے: "جنگ کو روکنے کے لیے اگر کچھ نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط یقینی ہو گا۔" پانچ ماہ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطینی کاشت کاروں کو اپنی زمینیں خالی کرنے پر مجبور کیا۔جبکہ بہت سے کاشت کار گولہ باری کی وجہ سے ان علاقوں سے نکل گئے ہیں، جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔ان کے مویشی اور مرغیاں بھوک سے مر رہے ہیں یا بم دھماکوں میں مارے جا رہے ہیں۔ ماہی گیری ممنوع ہے اور زمینی پانی آلودہ ہے۔اس لیے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ عالمی برادری کو اسرائیل اور غزہ کی جنگ بندی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔مجوزہ پلان کے مطابق رمضان کے دوران 40 دنوں تک لڑائی معطل رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس سے قبل بھی قطر کی کاوشوں سے جنگ بندی ہوئی تھی ۔اب بھی عرب ممالک کوآگے بڑھنا چاہیے اس کے لیے تمام عرب ممالک فلسطینیوں کی مالی امداد کریں ۔اگر مسلم امہ صرف زکوۃ کی رقم ہی فلسطینیوں کو دے تو وہاں سے قحط سالی ختم ہو سکتی ہے ۔