دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کے حملوں سے برطانیہ کے بڑے شہر تباہ ہو رہے تھے کسی نے چرچل سے سوال کیا کہ برطانیہ یہ جنگ ہار جائے گا؟ چرچل نے پوچھا کیا برطانیہ کی عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے؟ جواب ملا برطانیہ کی عدالتیں مبنی بر انصاف فیصلے کر رہی ہیں۔ چرچل نے کہا اگر برطانیہ کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو برطانیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ چرچل کا برطانیہ میںانصاف پر یقین اپنی جگہ مگر تاج برطانیہ کے محکوم ہندوستان کے سیاسی لیڈرمولانا ابو الکلام آزاد کا کہنا تھا کہ ’’تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں، انصاف کے ایوانوں میں ہوئی ہیں‘‘۔ اسے پاکستان اور پاکستانیوں کا المیہ میں ہی کہا جا سکتا ہے مولانا کا یہ قول برطانیہ کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعدپاکستانی عدلیہ پر صادق آتا محسوس ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہی پاکستان کی عدالتوں نے قانون اور انصاف کے بجائے فیصلے نظریہ ضرورت کے مطابق کرنا شروع کر دیئے تھے۔ مولوی تمیز الدین کیس ویسے تو سیدھا اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف کے حصول کا مقدمہ تھا۔سندھ چیف کورٹ جسٹس محمد بچل میمن نے سپیکر مولوی تمیز الدین کیس کی سماعت کی اور فیصلہ گورنر جنرل کے خلاف اور اسمبلی کی بحالی کے حق میں دیا۔جو طاقتوروں کو قبول نہ تھا۔گورنر جنرل نے اس فیصلے کے خلاف پاکستان فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی اور ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت چیف جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔اس طرح جسٹس منیر نے آنے والے دنوں میں پاکستان کی عدلیہ کے لئے’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ملک میں مارشل لائوں اور آئین و قوانین سے ماورا حکمرانوں اور حکومتوں کیے لیے راستہ کھول دیا۔ جسٹس منیر کا قانون اور انصاف کے بجائے اشرافیہ کی خواہش کے مطابق نظریہ ضرورت متعارف کروانے کے بعد ملک میں انصاف کی صورتحال ڈھلوان سے لڑھکتے پتھر سی ہو کر رہ گئی اور اکثر اہم قومی معاملات کا فیصلہ انصاف کے بجائے ضرورت کے مطابق ہونے لگا ۔یہ ضرورت کبھی کسی ایک طاقت ور کی ہوتی تو کبھی دوسرے کی۔ اس کے بعد ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ اور اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس منیر نے اس مقدمے میں سکندر مرزا اور ایوب خان کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو دوبارہ 'نظریہ ضرورت‘ کے تحت درست قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ بھی بعد میں ہونے والے غیر جمہوری اقدامات کو آئینی جواز مہیا کرنے کا باعث بنا تھا۔ جسٹس منیر کی زندگی میں ہی ان کی جگہ مولوی مشتاق نے لی جس کی تصدیق اب سپریم کورٹ کے اعتراف سے ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے مقدمے میں ان پر دباؤ تھا۔ انصاف اور ضرورت کے اس مقابلے میں ہمیشہ طاقتور کی ضرورت کا ہی احترام ہوا نظریہ ضرورت کے متاثرین بدلتے رہے نظریہ قائم رہا اور نوبت انصاف فراہم کرنے والوں کے انصاف کے لئے دھائی تک پہنچ گئی۔گزشتہ روز 6ججز کی درخواست پر سماعت کے دوران معزز جج نے فرمایا کہ گزشتہ76برس سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ معزز جج نے درست نشاندہی فرمائی اور سوال اٹھایا ہے ہم سچ کیوں نہیں بولتے اس کا جواب بھی ان کے دوسرے سوال میں موجود تھا ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ معزز جج کے ریمارکس سے ہٹ کر بھی یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جھوٹ بولنے اور سچ نہ بولنے میں باریک سی لائن ہوتی ہے۔ سچ بولنے سے اجتناب کی وجہ یقیناً خوف ہی ہوتا ہے اور خوف کی شدت کا اندازہ سماعت کے دوران معزز جج جسٹس مندو خیل کے ریمارکس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 6 معزز ججوں کے علاوہ پاکستان کی تمام ہائی کورٹس نے اپنے جوابات میں عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بات نہ مانی جائے تو بیرون ملک سے فون پر قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ قتل کی دھمکیوں پر حکومتی ادارے مناسب کارروائی کرنے سے بھی قاصر بتائے گئے ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں مداخلت کے سدباب کے لئے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں سے تجاویز وسفارشات طلب کرنے کے بعد دوسرے سٹیک ہولڈرز وکلا تنظیموں کو بھی تجاویز جمع کروانے اورانہیں سننے کا عندیہ دیا ،یوں نظام عدل سے وابستہ تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر اس گھتی کو سلجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بقول شاعر: غیر ممکن ہے حالات کی گتھی سلجھے اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے کتنا سوچ کر الجھائی ہے اس کا اندازہ معاملہ سپریم کورٹ میں معاملہ زیر سماعت آنے کے بعد حکومت کے عدالتی اصلاحات کا تیر چلانے سے ہو جاتا ہے جس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کو ’’دائرے ‘‘ میں رکھنے کے لئے یہ اقدام کر رہی ہے۔ سچ اور خوف کی کشمکش میں جیت کس ہو گی اس کا اندازہ سماعت کے غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونے پر اہل دانش کی سرگوشیوں سے ہو جاتا ہے۔ جو بھی ہوخوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انصاف کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ نظریہ ضرورت کے حوالے سے نہ صرف معزز جج صاحبان اور وکلا تنظیموں بلکہ عوام الناس میں بھی احساس بیدار ہو رہا ہے اس کیس پر جو بھی فیصلہ آ ئے اس سے بھی اہم پاکستانیوں میں یہ احساس پیدا ہونا ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل میں ایک رکاوٹ نظام عدل کی کمزوریاں ہیں اور یہ کہ جب تک ملک میں انصاف کی بلا امتیاز فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا مسائل کی شدت اور نوعیت تو بدلتی رہے گی ملکی حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔