پچھلے کالم میں فلسطین میں یہود کی آباد کاری پر تفصیل سے بات کی گئی۔ اب آئیے اس سوال کی جانب کہ اقوام متحدہ کے وضع کردہ اصول کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ 1.جنرل اسمبلی نے 15 دسمبر 1946 کو Constitution of the International Refugee Organization پاس کیا۔ اس کے مندرجات قابل غور ہیں:اس کے ابتدائیے میں پہلے ہی پیراگراف میں لکھا گیا کہ یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا تو اس کا بوجھ فلسطین پر کیوں ڈالا؟ اقوام عالم نے اس مسئلے کو مل جل کر کیوں حل نہیں کیا؟ 2۔اس میں اقوام عالم کا بنیادی فریضہ یہ بتایا گیا کہ ان لوگوں کو ان کے اصل ملک میں واپس بھیج دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مشرقی یورپ سے آئے ان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی بجائے ان کو واپس ان کے country of origin میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟ 3۔اس کے آرٹیکل 2 کے پیراگراف 2 کی ذیلی دفعہ 'جے' میں لکھا ہے کہ آرگنائزیشن ان ممالک سے معاہدے کرے گی جو ممالک ایسے لوگوں کو اپنے ہاں رکھنے کے قابل ہوں اور انہیں اپنے ہاں رکھنے پر رضامند ہوں۔ یعنی اس آئین کے مطابق کسی ملک پر زبردستی نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ ان یہودیوں کو اپنے ہاں آباد ہونے دے۔ ان کو پناہ دینا اور اپنے ہاں آباد ہونے کی اجازت دینا یا نہ دینا، خالصتا متعلقہ ملک کی صوابدید تھی۔ سوال یہ ہے کیا فلسطینیوں نے کسی بھی سطح پر اس بات کی اجازت دی کہ مشرقی یورپ کے یہ یہودی فلسطین میں آباد کیے جائیں؟ اگر اجازت نہیں دی اور عرب بار بار ا س آبادکاری پر اعتراض کرتے رہے تو کیا یہ آباد کاری انٹر نیشنل لا کی روشنی میں ایک ناجائز عمل نہیں ہے؟ جہاں تک ان آباد کاروں کو اپنے ہاں رکھنے کی قابلیت اور استطاعت کا تعلق ہے تو فلسطین کے پاس وہ بھی نہیں تھی۔ فلسطین ایک غریب ملک تھا۔ اس کے پاس یہ اہلیت ہی نہیں تھی کہ اتنے زیادہ یہودیوں کو اپنے ملک میں سنبھال لیتا۔ اقوام متحدہ کی سپیشل کمیٹی برائے فلسطین کی رپورٹ میں اس سوال پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ پیراگراف 20 میں لکھا ہے کہ فلسطین پہلے ہی over populated ہے اور یہاں اوسطا ہر مربع میل میں 324 افراد آباد ہیں۔ (یعنی یہاں مزید لوگوں کی گنجائش نہیں)۔ پیراگراف 27 اور پیراگراف 54 میں لکھا گیا کہ فلسطین کی معاشی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ ا س آباد کاری کا بوجھ اٹھا سکے۔ 4۔اس میں لکھا تھا کہ ان کی آباد کاری اس انداز سے کی جائے کہ اقوام عالم کے دوستانہ تعلقات خراب نہ ہوں۔ جب کہ عملا یہ ہوا کہ یہود کی آباد کاری نے دنیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا۔ 5۔جنرل پرنسپلز کے پیراگراف 1 کے ذیلی پیراگراف 'جی' میں لکھا تھا کہ جہاں ان لوگوں کو آباد کیا جائے وہاں کے مقامی لوگوں کے خدشات اور کو لازمی طور پر مدنظر رکھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کے خدشات کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ 6۔ایک اصول یہ طے کیا گیا کہ جس علاقے میں ایسے لوگوں کو آباد کیا جائے وہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں کی آبادی کے حقوق پامال نہ ہوں۔ دستاویز انتداب کے آرٹیکل 6 میں کہا گیا کہ یہود کی آباد کاری صرف under suitable conditions کی جائے گی؟ سوال یہ ہے کیا فلسطین کے حالات مناسب تھے اور کیا فلسطین انہیں قبول کرنے کو تیار تھا؟ مزید یہ کہ جس آباد کاری کے نتیجے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 93 فی صد سے کم ہو کر 66 فی صد رہ گیا ہو کیا اس کے بارے میں آرٹیکل 6 کی یہ شرط پامال نہیں ہو جاتی کہ جس علاقے میں ایسے لوگوں کو آباد کیا جائے وہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں کی آبادی کے حقوق پامال نہ ہوں؟ 7۔دستاویز انتداب کے آرٹیکل 6 میں ہی لکھا تھا کہ فلسطین کے زیر انتداب علاقے میں یہ آبادکاری Mandatory power یعنی برطانیہ نے نہیں کرنی بلکہ یہ کام فلسطینی انتظامیہ (ایڈ منسٹریشن آف فلسطین) نے کرنا ہے۔ لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 میں بھی یہی بات کی گئی تھی کہ ایک فلسطینی انتظامیہ ہو گی اور Mandatory power یعنی برطانیہ اس کو تجاویز اور معاونت فراہم کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہود کی فلسطین کی آبادکاری کے اس سارے عمل میں ایڈ منسٹریشن آف فلسطین کہاں تھی؟ اس کا تو وجود ہی نہیں تھا؟ 8۔اقوام متحدہ نے اپنے ہی بنائے ان اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطین میں یہود کو جبری طور پر آباد کیا۔ چانچہ اقوام متحدہ کی سب کمیٹی نمبر 2 برائے فلسطین نے اپنی رپورٹ کے پیراگراف 47 میں لکھا کہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کو فلسطینیوں نے پسند نہیں کیا، وہ اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر ان کی زمین پر یہودیوں کو آباد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ 9۔یہی بات اقوام متحدہ کی سپیشل کمیٹی برائے فلسطین نے اپنی رپورٹ کے باب 2 میں پیراگراف 150 میں لکھی کہ فلسطین میں اس طرح یہود کی آباد کاری لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی سب کمیٹی 2 برائے فلسطین نے اپنی رپورٹ کے پیراگراف 49 میں لکھا کہ فلسطین میں یہود کی مزید آباد کاری کی اب کوئی گنجائش نہیں، اس کے لیے اب کوئی ا ور ملک دیکھا جائے۔ اس کمیٹی کی قرارداد نمبر 2 اور اس کی تین سفارشات بھی اس معاملے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی سفارش یہ پیش کی گئی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی بجائے یہ یہودی جس جس ملک سے آئے ہیں ان متعلقہ ممالک سے کہا جائے کہ وہ ان کو واپس اپنے وطن آنے دیں، انہیں قبول کریں اور اپنے ہاں آباد ہونے دیں۔ دوسری سفارش یہ تھی کہ جو یہودی اپنے آبائی وطن واپس نہ بھیجے جا سکیں انہیں فلسطین میں آباد کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کے رکن ممالک اپنے ہاں آباد کریں اور ان ممالک کے رقبے، معاشی وسائل، فی کس آمدنی، آبادی اور دیگر عوامل کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے کہ کس ملک کے حصے میں کتنے یہودی آئیں گے؟ تیسری سفارش یہ تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک سپیشل کمیٹی بنائے جو ان اصولوں کی بنیاد پر طے کرے کہ ا قوام متحدہ کے ممالک کے حصے میں کتنے یہودی آباد کار آئیں گے۔ لیکن انٹر نیشنل لاء کے تمام ضابطوں اور اپنی ہی کمیٹی کی سفارشات کو پامال کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے بڑی طاقتوں کے دباؤ پر یہ کام جاری رکھا اور زبان حال سے بتا دیا کہ دنیا میں آج بھی دلیل کو طاقت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا اور طاقت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی دلیل ہے۔