کیا ایسا پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ ہمارے فیصلے لندن دبئی میں ہو رہے ہیں مگر کافی عرصہ ہوا امریکہ میں نہیں ہو رہے ورنہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی دوستی کے چرچے پوری دنیا میں ہوتے تھے۔ اب بیجنگ ریاض بھی میدان میں آ چکے ہیں میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے اسلام آباد میں اپنے فیصلے کرنے کا سوچا بھی ہو کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ ذرا تصورکریں وہاں کی حکومت اور عوام کیا سوچتے ہوں گے کہ یہ اپنے ملک کے فیصلے یہاں کیوں آ کر کرتے ہیں اپنے ملک میں کیوں نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک اس میں ان کا بھی کردار ہوتا ہے جہاں یہ فیصلہ کرتے ہیں جب یہاں کوئی بات نہیں بنتی یا کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے تو یہ سب وہاں چلے جاتے ہیں یا تو ان سب کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں یا یہ خود چاہتے ہیں کہ وہ ہماری سرپرستی کریں ایسا بھی وقت تھا کہ واشنگٹن ریاض کو کہتا تھا کہ اسلام آباد کو سمجھائیں آج ہم بیجنگ کے ساتھ بھی چلنا چاہتے ہیں اور واشنگٹن کی بے رخی سے بھی گھبراتے ہیں۔ واشنگٹن ہمیں امداد دیتا تھا جب کہ بیجنگ پیسے نہیں دیتا بلکہ منصوبے دیتا ہے اور اس عمل میں خود بھی شریک ہوتا ہے ریاض ہمیں آئی سی یو میں آکسیجن فراہم کرتا ہے اور ظاہر ہے آکسیجن کے مسلسل استعمال سے ڈاکٹر منع کرتے ہیں لہذا عارضی حل ہے آج ہم ایک ساتھ ہر کسی کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر دنیا بہت بدل چکی ہے یا ہمیں سمجھ چکی ہے۔ تمام ممالک ہماری عوام کے حق میں ہیں اور سب کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر جب ہمارے سیاستدان ان سے ملتے ہیں تو وہ تھوڑا گھبرا جاتے ہیں چونکہ ان سے جو بھی ملتا ہے وہاں کے حکمران میڈیا اتھارٹیز مشکوک سمجھتے ہیں حتی کہ وزیراعظم تک جب ان سے ملتا ہے تو وہاں کا میڈیا اور اتھارٹیز بتا رہی ہوتی ہیں کہ موصوف کرپشن کے لاتعداد مقدمات میں ضمانت پر ہیں اب انہیں کیا پتا کے مقدمات جعلی ہیں یا سیاسی ہیں یا اصلی ہیں اس لیے وہ کوئی بھی بڑا معاہدہ نہیں کرتے اور پھر بات خیر خیرات پر آجاتی ہے۔بہت عرصہ ہوا واشنگٹن سے امداد بند ہوچکی ہے اب وہ یہاں یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت کا م کر رہے ہیں۔ آج آئی ایم ایف ریاض بیجنگ کی گارنٹی مانگتا ہے یا کہتا ہے کہ حصہ ڈالو حالانکہ ان ممالک کا آئی ایم ایف سے واسطہ بھی نہیں پڑا اب تو قوم بھی عادی ہوچکی ہے کہ ہر سال ہم نے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینی ہے ظاہر ہے جب ہم مرہون منت ہوں گے تو کیسے آزادانہ فیصلے کریں گے ہماری مجبوریاں ہی ہماری کمزوریاں بن چکی ہیں اور اغیار انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی منشا سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی اور بعد ازاں اسی اقتدار کو دوام بخشا جاتا ہے۔ کیا پاکستان بھی اس طرح کسی ملک کے سیاسی معاشی نظام پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا قومیں اپنا فیصلہ خود کرتی ہیں اور ہماری 76 سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہم اپنا فیصلہ کبھی خود نہ کر سکے اگر کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی ہورہی ہے تو وہ کتنی دیرپا ہوگی۔ آج گلوبل ولیج میں جدید میڈیا نے سب کچھ آشکار کر دیا ہے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہی دنیا سرعام معاشی معاہدے کر رہی ہے ہر کسی کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے اسی لیے دنیا میں معاشی بلاک بن رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ دبئی میں بیٹھے ہمارے مسیحا ہماری تقدیروں کے فیصلے تو کر ہی رہے ہیں مگر ان کا اصل مدعا صرف اپنے اقتدار کے لیے راہیں ہموار کرنا اور اگلی نسل تک اسے منتقل کرنا ہے۔ وراثتی انتقال برصغیر کو کھا گیا نیچے سے لے کر اوپر تک ایک ہی کوشش رہتی ہے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اسے کسی نہ کسی طریقے سے اپنی نسل کو دے جاؤں۔ مرنے سے پہلے پہلے سب سے اہم فریضہ یہی ہوتا ہے پورا ملک یونین کونسل کی طرز پر چلایا جارہا ہے اور وہی کاوشیں کہ میں چودھری بن جاؤں اور جاتے جاتے اپنی نسل کو بنتا ہوا دیکھ کر جائوں۔ کیا آج جدید معاشی دور میں کہیں ایسا ہوتا ہے زرداری نوازشریف اور عمران خان یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ '' نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے '' کی سیاست نے پوری دنیا میں ہمیں رسوا کردیا ہے۔ الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں اور دنیا اسے حقیقی سمجھتی ہے بھلے عدالتیں اسے جھوٹا کہہ کر خارج کردیں مگر دنیا کے ذہن سے انہیں کھرچنا ناممکن ہے۔ کاش ہم ملک کی معاشی حالت کا سوچیں کاروبار چلائیں۔ فیکٹریاں چلائیں ملک میں پیسے کی ریل پیل ہو مگر ہر گزرتے دن کیساتھ یہ ایک خواب ہی بنتاجا رہا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ ملک میں معاشی انقلاب آئے تمام ادارے اور عوام یہی چاہتے ہیں مگر پتہ ہی نہیں چل رہا کہ یہاں فیصلے کون کررہا ہے اور کیا سوچ کر رہا ہے اور ایسا کب تک چلے گا ۔