ملک میں نگران سیٹ اپ قائم ہو چکا ۔ انوارالحق کاکڑ نے نگران وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھا لیا ہے ۔ حلف دینے کے بعد حلف کی پاسداری حلف دہندہ پر عائد ہوتی ہے ویسے ہمارے ملک میں بد قسمتی سے حلف کی پاسداری کم اور خلاف ورزی زیادہ ہوتی رہی ہے شاید نظریہ ضرورت کے مطابق حلف کی فائل کو کسی کباڑ خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اس وقت تک کے لیے جب تک کوئی دوسرا اس عہدے پر فائز ہونے کے لیے نہیں آ جاتا یا پھر حلف اٹھانے والے کے دل سے حلف خیال غلط کی طرح نکل جاتا ۔ گزشتہ 5 سال یوں تو جمہوریت تھی لیکن جمہوریت کے نام پر عوام سے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچنے والوں کا رویہ جمہوری نہیں تھا۔ مذاکرات میں ڈیڈ لاک انا پسندی خود پسندی محاذ آرائی،مبالغہ آرائی کا دور دورہ رہا۔ زمہ دار عہدوں پر فائز لوگوں کا لب و لہجہ برتائو ایسا لگتا رہا جیسے ہم نے جمہوریت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ اس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔اخلاق باختہ حواس باختہ لوگوں نے ماحول میں اس قدر تلخی و رنجش بڑھا دی کہ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا کہ اب ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسا تو نہیں ہوا لیکن جمہوریت بہت کمزور ہو گئی۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سے اہم وجہ اہل اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہے ۔ قحط الرجالی اور مصنوعی قیادت کی وجہ سے ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر رہا کیوں کہ نرسری میں مختلف ادویات کے استعمال سے مصنوعی طریقے سے جو پودے اور پھل تیار ہوتے ہیں کبھی کبھی وہ صحت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی طریقے سے جو طاقت حاصل کی جاتی ہے وہ بھی وقتی طور پر ہوتی ہے قحط الرجال کیوں ہے آج ملک میں 25 کروڑ لوگوں کے جم غفیر میں بھی اچھے انسانوں کی کمی ہے۔ آبادی میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے ایک طرف قحط الرجال ہے تو دوسری طرف علم الرجال ہے لوگوں میںشعور کی کمی ہے اب غور کریں کہ مصنوعی کا مطلب ہے بنایا ہوا،تیار کیا ہوا،خود ساختہ، ہاتھ یا مشین کا بنایا ہوا اور جو قدرتی نہ ہو غیر حقیقی،جعلی،بناوٹی،نقلی اور دکھاوے کا،اس طرح کی قیادت کا انجام دیکھ لیا سب نے۔آج کل ملک میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے ۔مصنوعی قیادت ہے مصنوعی خوراک ہے مصنوعی پھل ہیں مصنوعی دانت ہیں مصنوعی بال ہیں مصنوعی چہرے ہیں مصنوعی مسکراہٹ ہے مصنوعی رشتے ہیں مصنوعی معاشرے میں اس وقت ہر چیز مصنوعی ہے۔ جب قیادت مصنوعی ہو گی تو پھر معاشرے میں ہر چیز کا مصنوعی ہونا کوئی اچھنمبے کی بات نہیں،اس کے برے اثرات سے ہم سب متاثر ہو رہے ہیں اور دن بدن صورتحال پرشان کن ہوتی جارہی ہے۔ قحط الرجالی میں اچھے،بھلے انسانوں کی لائق لوگوں کی کمی پائی جانا یعنی لائق لوگوں کی قلت ہونا فطری عمل ہے ایسا کیوں ہے اچھے بھلے اور قابل لوگ کیوں پیچھے ہیں ان کی صلاحیتوں کو کیوں زنگ لگ چکا ہے وہ آگے کیوں نہیں آ رہے ہیں وجہ بڑی واضح اور سادہ ہے کہ ان کے پاس روپے پیسے کی کمی ہے آج کے دور میں جس کے پاس دولت ہے وہ ہی معتبر ہے۔ اسی کا سکہ چل رہا ہے ہم ذاتی طور پر کسی شخص یا اشخاص کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس وقت جو صورتحال چل رہی ہے ایسی ہی ہے۔ قابلیت اور صلاحیت کی کمی ہے اور یہ کمی نظام کے لیے بھی خطرناک ہے پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ دولت کی وجہ سے کتنے لوگ سیاسی میدان میں اترے اور کہاں تک پہنچ گئے نقل لگانے سے نمبر تو اچھے آ سکتے ہیں لیکن نقل سے عقل نہیں آتی ہے عقل کے لیے عقلمند ہونا ضروری ہے یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اگر اللہ تعالٰی نے رزق عقل مند لوگوں کے لئے ہی رکھا ہوتا تو بے وقوف بھوکے مرتے۔دولت سے ضمیر تو خریدے جا سکتے ہیں لیکن نظام نہیں خریدا جا سکتا۔ سیاست کی نرسری ہو یا پودوں کی نرسری ہو مصنوعی طریقے سے سیاسی نرسری میں تیار کیا گیا لیڈر اچھی پرفارمنس نہیں دے سکتا پودوں کی نرسری میں مصنوعی طریقے سے قد آور بنایا گیا پودہ بھی سرد گرم ماحول کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ آزاد کشمیر تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے لیکن کچھ عرصے سے یہاں بھی اقتدار کے ایوانوں میں قحط الرجالی ہے میرٹ سنیارٹی قابلیت سب پامال ہو رہا ہے اور جب یہ سب پامال ہو رہا ہو تو پھر نظام میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ مصنوعی نظام میں مصنوعی طریقے سے ہر چیز پرواں چڑھتی ہے اور مصنوعی طریقے سے پرواں چڑھنے والی چیز جلد تاریک راہوں میں گم ہو جاتی ہے۔ سردار تنویر الیاس خان کس طرح اقتدار میں آئے اور کس طرح اقتدار کے ایوانوں سے نکالے گئے چوہدری انوار الحق وزیراعظم آزاد کشمیر راتوں رات وزارت اعظمی کی کرسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یہ راز نہیں ہیں وقت نے ثابت کیا کہ ضروری نہیں کہ اچھا کاروباری اچھا لیڈر بھی ہو اچھا مقرر بھی ہو ہر شعبہ میں مہارت الگ الگ ہے اس کے پیرامیٹرز الگ الگ ہیں۔ قحط الرجالی کے اس دور کو ختم کرنے کے لیے باصلاحیت اور قابل استعداد لوگوں کو آگے آنا ہوگا اب پاکستان کے نگران وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے لیے کتنے لوگ تیار تھے تمام تر تجزیے اندازے اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور انوارالحق کاکڑ کے سر پر نگران وزیراعظم کا تاج رکھ دیا گیا۔ ہم دعا گو ہیں کہ ملک پاکستان ترقی کرے استحکام آئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی اب احساس کرنا ہوگا کہ اہل قابل اور فراست و دانشمندی رکھنے والے جماعت کے رہنمائوں کو آگے لائیں تاکہ ملک بھی آگے بڑھ سکے ،ورنہ انجام گلستان کیا ہو گا خدا جانے۔